علامہ افتخار الحسن رضوی
استخارہ ایک نہایت مبارک عمل ہے، رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے اور اس عمل سے انسان کو خیر عطا ہوتی ہے۔ استخارہ کرنے میں ہماری غلطیوں کی وجہ سے بعض اوقات نتائج ہماری توقعات سے مختلف ہوتے ہیں لیکن یہ خالص ہماری غلطی کی وجہ ہی سے ہوتے ہیں۔ استخارہ کی اہمیت اس حدیث پاک سے سمجھیے؛
عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارة فی الامور کلھا کما یعلمنا سورة من القرآن (ترمذی )
ترجمہ :حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ” رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تمام کاموں میں استخارہ اتنی اہمیت سے سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم عطا فرماتے تھے”۔
مجھے بطور روحانی معالج اس طرح کے معاملات سے روزانہ واسطہ پڑتا ہے، سب سے زیادہ بے چینی ان لوگوں کو ہوتی ہیں جن کے استخارے رشتوں کے متعلق ہوتے ہیں۔ بظاہر ایک اچھا خوبصورت، مال دار اور نیک رشتہ آپ کے لیے مضر بھی ہو سکتا ہے اور ایک غریب، کم پڑھا لکھا اور سادہ شکل و صورت والا رشتہ آپ کے لیے خیر کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ تو ایسے خواتین و حضرات جن کا شادی کا استخارہ ان کی مرضی کے خلاف آئے وہ پریشان نہ ہوا کریں بلکہ اللہ کی رضا میں راضی رہنے کی کوشش کریں کیونکہ رب تعالٰی کی کائنات سے بھاگ کر باہر نکلنا ہماری بساط سے باہر ہے۔ ایک حدیث پڑھیے اور اپنے ایمان کی حفاظت کی سامان کیجیے؛
عن سعد بن وقاص عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من سعادة ابن ادم استخارتہ من اللہ و من شقاوتہ ترک الاستخارة و من سعادة ابن اٰدم رضاہ بما قضاہ اللہ ومن شقوة ابن اٰدم سخطہ بما قضی اللہ․(مشکوة)
ترجمہ : سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ” انسان کی سعادت اورنیک بختی یہ ہے کہ اپنے کاموں میں استخارہ کرے اور بدنصیبی یہ ہے کہ استخارہ کو چھوڑ بیٹھے،اور انسان کی خوش نصیبی اس میں ہے کہ اس کے بارے میں کیے گئے اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہے اور بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرے۔
لہٰذا عارضی مال و دولت اور حسن و خوبصورتی پر مر مٹنے کی بجائے رب کی بارگاہ سے رجوع کریں اور اس سے طلب کریں جو مناسب ہے وہ عطا ہو جائے۔
شادی کے لیے استخارہ کب کیا جائے؟
جب دو خاندان (یا دو افراد) ایک دوسرے کو دیکھ کر، سمجھ کر اور پوری حکمت، فہم اور فراست سے اس نتیجہ پر پہنچ جائیں کہ دونوں افراد ایک دوسرے سے دینی، فکری، معاشرتی اور ضروری مطابقت رکھتے ہیں تو اب استخارہ کریں، ایک دوسرے کو بتا دیں کہ ہم نے ایک دوسرے کو پسند کر لیا ہے لیکن اب معاملہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں۔ مسنون استخارہ کی دعا پڑھیں، پہلی رات سے لے کر ساتویں رات تک استخارہ کریں، جس رات واضح جواب مل جائیں اس سے اگلے دن استخارہ نہ کریں۔ استخارہ کا طریقہ درجِ ذیل ہے؛
دو رکعات نمازِ نفل استخارہ کی نیت سے ادا کریں۔ ان دو رکعات میں سے پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دوسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھے۔ پھر درج ذیل دعا پڑھے :
اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ أَسْتَخِيْرُکَ بِعِلْمِکَ، وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِيْمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ. اَللَّهُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ. . . (يہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) . . . خَيْرٌ لِیْ، فِيْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ، فَاقْدُرْهُ لِيْ وَيَسِّرْهُ لِيْ، ثُمَّ بَارِکْ لِيْ فِيْهِ، وَإنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ. . . (یہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) . . . شَرٌّ لِّيْ، فِيْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ، فَاصْرِفْهُ عَنِي وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ کَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِيْ بِهِ.
(بخاری، الصحيح، کتاب التطوع، باب ما جاء فيالتطوع مثنی مثنی، 1 : 391، رقم : 1109)
’’اے اللہ! بے شک میں (اس کام میں) تجھ سے تیرے علم کی مدد سے خیر مانگتا ہوں اور (حصولِ خیر کے لیے) تجھ سے تیری قدرت کے ذریعے قدرت مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیرا فضل عظیم مانگتا ہوں، بے شک تو (ہر چیز پر) قادر ہے اور میں (کسی چیز پر) قادر نہیں، تو (ہر کام کے انجام کو) جانتا ہے اور میں (کچھ) نہیں جانتا اور تو تمام غیبوں کا جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (جس کا میں ارادہ رکھتا ہوں) میرے لیے، میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کر اور آسان کر پھر اس میں میرے لیے برکت پیدا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس (کام) کو مجھ سے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی عطا کر جہاں (کہیں بھی) ہو پھر مجھے اس کے ساتھ راضی کر دے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر اپنی حاجت بیان کرو۔
یہ استخارہ کسی بھی حاجت، ہدف یا کام کے لیے ہو سکتا ہے۔
کیا عاملین سے استخارہ کروا سکتے ہیں
بعض لوگوں کا یہ سوال ہوتا ہے کہ ہمیں استخارے میں کچھ نظر نہیں آتا، یا سمجھ نہیں پاتے۔ ایسے افراد کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی بزرگ یا مناسب دینی علم رکھنے والے پرہیز گار فرد سے استخارہ کروا لیں۔ ہر عامل اور عالم کو استخارہ کرنے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے، بعض لوگ اپنی فراست اور کشف سے یہ کام کر لیتے ہیں، بعض قرآن کی مخصوص آیات یا دیگر وظائف و اوراد سے کر لیتے ہیں۔ ایسا کر لینا جائز ہے۔ لیکن یاد رکھیں، کسی ایسے فرد کے سامنے اپنے راز مت کھولیں جو کذاب، جاہل اور شریعت سے ٹکر لینے والا ہو۔

استخارے کا شرعی مسنون طریقہ
اپنی رائے دیں