از: علامہ افتخار الحسن رضوی
ایک مسلمان کے لیے کسی چیز کو کرنا یا نہ کرنا اہم نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ نے اس پر کیا حکم دیا ہے، جو انہوں نے فرما دیا مسلمان کے لیے آنکھیں بند کر کے اسے قبول کر لینا ہی ایمان کی سلامتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ انسان اپنی جان کا مالک نہیں ہے، بلکہ انسانی جان اللہ تعالٰی کی ملکیت ہے، یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے انسان کو بلا اجازت شرعی جسم کا کوئی ٹکڑا، عضو یا حصہ کاٹنے یا بیچنے کی بھی اجازت نہیں دی، جسم پر جو ٹیٹو بنواتے ہیں وہ بھی اسی لیے منع ہے کہ اللہ کی ملکیت میں ہم اپنی مرضی سے تبدیلی نہیں کر سکتے، اسی بنیادی پر بلا اجازت شرعی گردوں کی تبدیلی، جگر کی تبدیلی وغیرہ منع ہے، مغربی دنیا میں یا فیشن کی دنیا میں بعض احمق خواتین اپنی چھاتیوں میں Silicone ڈال کر عارضی اور ہلاک کرنے والے فیشن کی مرتکب ہوتی ہیں، یہ بھی اسی لیے ناجائز ہے۔
تو جب ہماری جان اللہ کی ملکیت ہے تو ہم ایسی جان کیسے لے سکتے ہیں جو ہماری ملکیت ہی نہیں؟ جو اس جان کا مالک ہے وہ جب چاہے لے لے۔ اس نے تو ہمیں یہ زندگی دی ہے کہ میں نے تمہیں تمام وسائل عطا کر دیے ہیں، اب اپنی مرضی سے انتخاب کرو، اچھائی یا برائی کا راستہ اپنا کر اپنے انجام کا فیصلہ خود کرو۔ اگر اس کی اطاعت کرو تو انعام و اکرام کا وعدہ ہے اور اگر اس کے دشمن یعنی شیطان کی پیروی کرو تو جہنم منتظر ہے۔
اب قرآن و حدیث کی روشنی میں اس پر غور کیجیے؛
اللہ عزوجل فرماتا ہے؛
وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَo
’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اﷲ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہےo‘‘
البقرة، 2: 195
امام بغوی معروف مفسر قرآن ہیں، انہوں نے معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ اس میں خود کشی کی ممانعت مذکور ہے۔
ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًاo وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّهِ يَسِيرًاo
’’اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اﷲ تم پر مہربان ہےo اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اﷲ پر بالکل آسان ہےo‘‘
النساء، 4: 29، 30
امام فخر الدین رازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
{وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ} يدل علی النهی عن قتل غيره وعن قتل نفسه بالباطل۔
’’ {اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو} ۔ یہ آیت مبارکہ کسی شخص کو ناحق قتل کرنے اور خودکشی کرنے کی ممانعت پر دلیل شرعی کا حکم رکھتی ہے۔‘‘
رازی، التفسير الکبير، 10: 57
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ تَرَدَّی مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، يَتَرَدَّی فِيْهِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا. وَمَنْ تَحَسَّی سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَسُمُّهُ فِي يَدِهِ يَتَحَسَّاهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا. وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيْدَةٍ، فَحَدِيْدَتُهُ فِي يَدِهِ يَجَأُ بِهَا فِي بَطْنِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ میں کھاتا ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔‘‘
(بخاري، الصحيح،کتاب الطب، باب شرب السم والدواء به وبما يخاف منه والخبيث، 5: 2179، رقم: 5442
مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه وإن من قتل نفسه بشيء عذب به في النار، 1: 103، رقم: 109)
عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاکِ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيئٍ عُذِّبَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ.
’’حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی بھی چیز کے ساتھ خود کشی کی تو وہ جہنم کی آگ میں (ہمیشہ) اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جاتا رہے گا۔‘‘
(بخاري، الصحيح،کتاب الأدب، باب من أکفر أخاه بغير تأويل فهوکما قال، 5: 2264، رقم: 5754
مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه، 1: 104، رقم: 110)
تو خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسانی جان اللہ کی ملکیت ہے، کسی دوسرے کو قتل کرنا یا خود کو ہلاکت میں ڈالنا اسی لیے ناجائز و حرام ہے کہ انسانی جان کے ہم مالک ہی نہیں ہے۔ پھر اللہ عزوجل اور اس کے حبیب ﷺ نے بھی صراحت کے ساتھ خود کشی اور قتل سے منع فرمایا ہے۔
واللہ اعلم
اپنی رائے دیں