(علامہ افتخارالحسن رضوی )
پاکستان کے سابقہ فوجی قابض حاکم پرویز مشرف کے دور میں جب دین کا ٌمتبادل بیانیہٌ پیش کرنے کی منصوبہ سازی کی گئی تو مغربی ایما پر موصوف نے مسلمانوں کے اندر Soft Target تلاش کیے۔ چونکہ طالبان و القاعدہ اس دوران Hot Cake تھے تو جناب صدر پاکستان نے دین کا متبادل بیانیہ ٔصوفیاٌ کی شکل میں دینے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے عرف عام کی طرح صوفیا سے مراد مست ملنگ، شریعت بیزار اور رقصاں رقصاں پیر صاحبان ہی تھے۔ اس دوران ٌصوفیوںٌ کو ڈالر و پاؤنڈ کی مدد بھی دی گئی۔ نتیجے میں صوفی کانفرنسز اور سیمینارز ہوئے۔ دہلی اور کراچی کی صوفی کانفرنس اسی متبادل بیانیے کی ٌ Extensionٌ محسوس ہوئی ورنہ ہند و پاک کی ماضی قریب میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی۔ اور اس کی ضرورت اس لیے بھی نہیں کہ اہل اسلام یا اہل سنت ایسی صوفی کانفرنسز کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ کیونکہ ہمارے اکابر بالخصوص امام اہل سنت شاہ احمد رضا علیہ الرحمہ نے نصف النہار پر موجود سورج کی طرح یہ واضح کر دیا تھا کہ تصوف شریعت کے تابع ہے۔ صوفی وہی ہے جو شریعت اسلامیہ کی اتباع کرے، محمد الرسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرے اور قرآن اس کا منشور و قانون ہو۔ رنگ برنگے صوفیانہ فلسفے، تصوف کی علاقائی و شخصی تشریحات و توجیحات اور پھر رسول اللہ ﷺ، اصحاب رسول اور ائمہ مجتہدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فرامین و ارشادات کی بجائے درگاہی و خانقاہی شخصیات کے اقوال سے تصوف و طریقت کی راہیں متعین کرنا کیونکر قبول کیا جائے؟ اگر تصوف شریعت ہی کے تابع ہے اور ضرور ہے تو پھر صوفی صاحبان و درویش و پیران عظام اپنے مریدین کو شریعت اسلامیہ ہی کیوں نہیں پڑھاتے؟ کیونکہ ہمارے ائمہ کے فرامین یہ ہیں کہ شریعت پر استقامت ہی اصل کرامت اور تصوف ہے۔ درج ذیل حدیث بغور پڑھیے اور پھر سوچیے کہ جس مومن کا اس حدیث پر عمل ہو جائے، کیا وہ کامل صوفی نہیں بن جائے گا؟ اس کو مزید چلہ کشی اور رقص و مراقبے کی حاجت رہے گی؟ یہی اصل تصوف ہے۔
مصطفٰی جانِ رحمت ﷺ نے فرمایا؛
”سن لو! اللہ عزوجل کے اولیاء وہ لوگ ہیں جو ان پانچ نمازوں کو قائم کرتے ہیں جنہیں اُس نے اپنے بندوں پر فرض فرمایا ہے اور رمضان کے روزے یہ سوچ کر خالص رضائے الٰہی عزوجل کے لئے رکھتے ہیں کہ ان پر روزوں کا لازم ہو نا حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے مال کی زکوٰۃ خوشدلی سے ادا کرتے ہیں اور ان کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں جن کے ارتکاب سے اللہ عزوجل نے منع فرمایاہےٌ۔
عرض کی گئی :
”یارسول اللہ ﷺ کبیرہ گناہ کتنے ہیں؟”تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :
”یہ نو (۹)ہیں، ان میں سے بڑے گناہ اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کرنا، کسی مؤمن کو ناحق قتل کرنا، میدانِ جہاد سے فرار ہونا، پاکدامن عورت پر تہمت لگانا، جادو کرنا، یتیم کا مال کھانا، سود کھانا، مسلمان والدین کی نافرمانی کرنا اور اپنے قبلہ یعنی بیت الحرام کی آباد اور بنجر زمین کو حلال سمجھنا ہیں، جب کوئی ایسا بندہ مرتاہے جس نے یہ کبیرہ گناہ نہ کئے ہوں اور نماز قائم کی ہوا ور زکوٰۃ ادا کی ہو تو وہ جنت کے درمیان (حضرت سیدنا )محمد صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا ایسی جگہ رفیق ہو گا جس کے دروازوں کے پَٹ سونے کے ہوں گے۔”
قارئین کرام!
تصوف کا مقصود انسان کے ظاہر و باطن کو پاکیزگی و طہارت بخشنا ہے۔ جس کلمہ گو کا مذکورہ بالا فرمان مصطفٰی کریم ﷺ پر عمل ہو گا، کیا وہ کامل صوفی مع ظاہری و باطنی پاکیزگی کا حامل نہیں ہو جائے گا؟ اگر ہاں ، تو پھر غور کیجیے کہ دین کے متبادل بیانیے اور مزید کسی صوفی ازم یا تصوف کی حاجت رہ جاتی ہے؟
(المعجم الکبیر،الحدیث:۱۰۱،ج۱۷،ص۴۸، بدون ”یری أنہ علیہ حق” )
تصوف کا مقصود انسان کے ظاہر و باطن کو پاکیزگی و طہارت بخشنا ہے۔ جس کلمہ گو کا مذکورہ بالا فرمان مصطفٰی کریم ﷺ پر عمل ہو گا، کیا وہ کامل صوفی مع ظاہری و باطنی پاکیزگی کا حامل نہیں ہو جائے گا؟ اگر ہاں ، تو پھر غور کیجیے کہ دین کے متبادل بیانیے اور مزید کسی صوفی ازم یا تصوف کی حاجت رہ جاتی ہے؟
اپنی رائے دیں