(علامہ افتخار الحسن رضوی)
امام اہل سنت سیدنا الشاہ احمد رضا خان علیہ الرحمہ والرضوان سے متعلق ایک عمومی رائے جو مخالفین اہل سنت نے قائم کر رکھی ہے، وہ یہ کہ امام احمد رضا علیہ الرحمہ متشدد، سخت گیر رویہ اور تکفیری سوچ کے مالک تھے۔ اس رائے کے قائم ہو جانے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے امام احمد رضا علیہ ا لرحمہ کی کتب کا خود مطالعہ نہیں کیا بلکہ سنی سنائی بات پر عمل کرتے ہیں۔ صحیحین میں یہ روایات موجود ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ کسی بھی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات آگے پھیلا دے (بغیر تفتیش و تصدیق)۔ یہی معاملہ یہاں کارفرما ہے۔ لوگوں نے امام اہل سنت سے متعلق ان لوگوں کی گفتگو پر یقین کر لیا جو لوگ امام کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ امام اہل سنت سے ایک بار سوال کیا گیا کہ غیر مقلدین اہل سنت میں داخل ہیں یا مبتدع (بدعت کرنے والے) میں؟ اس پر امام اہل سنت کا ایک جواب ملاحظہ فرمائیں؛
“غیر مقلّدین مبتدع، گمراہ ہیں ۔ علمائے عرب و عجم کا اس پر اتفاق ہے ۔ دیکھو عرب شریف کافتوٰی، ”فتاوی الحرمین ” جس پر علمائے مکہ و مدینہ کی مُہریں ہیں اور کتاب ”فتح المبین” اور ”جامع الشواھد” جن پر عرب و ہند کے بہت سے علماء کی مہریں ہیں اور” طحطاوی حاشیہ درمختار” میں ان کے بدعتی ہونے کی تصریح ہے “۔ ( اظہار الحق الجلی)
مذکورہ بالا عبارت میں امام اہل سنت کی احتیاط کا انداز دیکھیں کہ ایک واضح سوال کے جواب میں آپ نے غیر مقلدین کومطلقاً نہ کافر لکھا اور نہ ہی گستاخ وغیرہ بلکہ ایک انتہائی مضبوط و مناسب اصطلاح استعمال فرمائی۔ جن علماء حضرات کے خلاف امام اہل سنت نے فتوٰی کفر صادر فرمایا ان میں شیخ رشیداحمد گنگوہی ، شیخ قاسم نانوتوی، شیخ خلیل احمد انبیٹھوی اور شیخ اشرف علی تھانوی شامل ہیں۔ اہل علم جانتے ہیں کہ امام احمد رضا نے ان لوگوں کے خلاف فتوٰی کفر دینے سے قبل طویل عرصے تک انہیں توبہ کی دعوت دی، انہیں تحریری و تقریری انداز میں یہ احساس دلانے کی بھرپور کوشش فرمائی کہ ان حضرات سے کفر و توہین کا ارتکاب ہوا ہے۔ “تحذیر الناس ” کی اشاعت کے تیس سال بعد اور “براہینِ قاطعہ” کی اشاعت کے سولہ سال بعد امام اہل سنت نے اپنے منصب کے تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے، امت مسلمہ کی خیر خواہی اور مذکورہ کتب کے مصنفین کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے 1320 ہجری میں فتوٰی کفر صادر فرمایا۔
آپ علیہ الرحمہ کی صداقت و امانت کا ثبوت دیوبندی علماء نے بھی دیا اور یہاں تک کہا کہ اگر مولانا احمد رضا ہمارے متعلق فتوٰی کفر نہ دیتے تو وہ خود کافر ہو جاتے (کیونکہ ان کے نزدیک مذکورہ شخصیات کفر کی مرتکب تھیں)۔
لہٰذا یہ بات واضح اور روشن ہے کہ امام اہل سنت نے کبھی بھی ذاتی رنجش، عجلت اور غیض و غضب میں آکر فتوٰی جاری نہیں کیا بلکہ آپ نے ان کی خیر خواہی کی، انتظار کیا ، حجت تمام کی اور کئی برس گزر جانے کے بعد فتوٰی جاری فرمایا۔
عصرِ حاضر کے علماء کرام بلکہ بریلوی رضوی نسبت رکھنے والوں کی خدمت میں بصد احترام عرض ہے کہ امام اہل سنت کے اس طریقے پر عمل پیرا رہیں، جلدی سے کسی کے گستاخ، کافر ، صلح کلی یا بد مذہب ہو جانے کا فتوٰی مت صادر کر دیا کریں۔ جو غلطی پر ہو اس کی اصلاح کی بھرپور کوشش کریں، اور “فتوٰی” آخری آپشن کے طور پر استعمال کریں۔ اور یاد رکھیں کہ امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے اس انتہائی اقدام سے پہلے کئی برسوں تک ان کی اصلاح کی کوشش جاری رکھیں۔
اپنی رائے دیں