برطانیہ میں اسلام و اہل اسلام کی مختصر تاریخ و احوال

برطانیہ میں اسلام و اہل اسلام کی مختصر تاریخ و احوال


(علامہ افتخار الحسن رضوی )

مملکت متحدہ (برطانیہ) مغرب کے ان خطوں میں سے ایک ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت کبھی قائم نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود آج عیسائیت کے بعد اسلام اس علاقے کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ اگر ہم پورے یورپ کا جائزہ لینا شروع کریں تو یہ ایک مشکل، طویل اور   تھکا دینے والا عنوان ہو گا، لہٰذا اس مضمون میں ہم فقط برطانیہ   (United Kingdom) میں اسلام کی موجودگی و آمد سے متعلق کچھ معلومات جمع کرنے کی کوشش کریں گے۔

2011 میں ہوئی مردم شماری کے مطابق صرف انگلینڈ اور ویلز کی ریاستوں میں ستائیس لاکھ مسلمان مقیم ہیں۔ ان مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق جنوبی ایشیاء (پاکستان، ہندوستان ، بنگلہ دیش) سے ہے۔ تاہم خلیجی عربی ممالک، مشرقی اور وسطی افریقہ سمیت وسطی ایشیائی ریاستوں سے تعلق رکھنے والوں مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی اس معاشرے کا حصہ بن چکی ہے۔ ماضی قریب میں ملائیشیا، افغانستان ، صومالیہ اور شام سے بھی کئی ہزار مسلمان خاندان برطانیہ منتقل ہوئے ہیں۔

برطانیہ کا مسلمانوں سے اولین تعارف:

اسلام اور انگلستان کے درمیان کئی صدیوں تک قابل ذکر رابطہ نہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی تعمیر و ترقی اور سیاسی و سماجی تاریخ میں مسلمانوں کے نام مفقود ہیں۔ تاریخی اعتبار سے   برطانیہ کے ساتھ اسلام کے تعارف کا سبب ایک ٌسونے کا سکہٌ بنا۔  دوسرے عباسی خلیفہ ابو جعفر عبد اللہ محمد المنصور نے 754 عیسوی ( 136 ہجری) میں جب خلافت سنبھالی تو اپنی سلطنت و حکومت کو ترقی دینے کے لیے اس نے سونے کے سکے متعارف کروائے جسے انگریزی میں (Gold Dinar) کہا جاتا ہے۔  اس دینار کی ایک جانب ٌلا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہٌ اور دوسری جانب ٌمحمد الرسول اللہٌ   لکھا ہوا تھا۔  عباسی خلیفہ نے مغرب کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے سونے کے اس سکے پر کلمہ شہادت نقش کروایا۔ اسی دور میں ٌمرشیاٌ (Mercia) جو کہ اس دور میں انگلینڈ اور اس سے ملحقہ علاقوں کی مملکت تھی ، کے بادشاہ ٌاوفاٌ (Offa) نے اپنی تجارت بڑھانے اور سرمایہ داری کو فروغ دینے کے لیے اپنی مملکت و بادشاہت کا سکہ جاری کر رکھا تھا جس پر ٌاوفاٌ بادشاہ کا نام و علامت منقش تھی۔ دونوں مملکتوں کے نمائندگان نے ایک دوسرے کے سکوں میں تجارت قبول کی، یوں پہلی مرتبہ کلمہ شہادت سے مزین سکہ مغرب کے ان علاقوں میں پہنچا اور لوگوں کو اسلام سے بنیادی واقفیت   پانے کا موقع ملا۔

اس تجارتی کرنسی یا سکے کے انگلینڈ پہنچ جانے کے باوجود کسی عیسائی یا انگریز فرد کے مسلمان ہونے کی کوئی شہادت یا ثبوت کتب ِ تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس دور میں مغرب کی عیسائیت مضبوط تھی، جگہ جگہ پر چرچ، عیسائی تبلیغی مراکز، مشنری ادارے اور مبلغین مضبوط گرفت کے ساتھ موجود تھے۔ جب کہ متعدد مسلمان ممالک میں بد عنوانیوں کے سلسلے جاری تھے اور سرکاری سطح پر دینی نشر و اشاعت کو وہ اہمیت حاصل نہ تھی جو خلفائے راشدین یا بعد میں آنے والے حاکم مثلا حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہم کے دور میں موجود تھی۔  لہٰذا کتب تاریخ کی روشنی میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ عباسی خلیفہ اور اوفا بادشاہ کی حکومتوں اور ریاستوں کے درمیان قائم ہونے والا یہ رابطہ فقط تجارتی یا تعارفی ہی تھا۔

برطانیہ کا مسلمانوں سے تعارف بذریعہ سائنس و تحقیق:

نویں اور تیرھویں صدی میں مسلمان ماہرین تعلیم، سائنس، طب جغرافیہ اور ادب کی موجودگی و کارنامے برطانیہ کے ساتھ اسلام کے مزید تعارف کا سبب بنے۔ سن 1386 میں مسلمان محققین کی کتب کا لاطینی، عربی و دیگر زبانوں سے انگریزی میں تراجم کا سلسلہ شروع ہوا۔  لیکن اہل مغرب نے اپنے روایتی مزاج کے عین مطابق ان کتب کو فقط ٌتعلیم و تحقیقٌ ہی کی نظر سے دیکھا اور اسے دین و مذہب سے جداگانہ حیثیت دی۔ یہی وجہ ہے کہ الرازی، ابن سینا ، ابن رشد ، جابر بن حیان اور الخوارزمی کے علاوہ البیرونی اور یعقوب الکندی کی کتب پڑھ کر کوئی ایک عیسائی بھی اسلام سے متاثر نہ ہوا بلکہ ان کتب کو فقط طب و جراحت، تنفس و عیون کے علاج، زمین کی پیمائش، الجبر ا و ارضیات اور صوتی علوم کی کتب سمجھ کر پڑھا اور تراجم کیے۔ بلکہ بعض کتب اور ان کے لکھاریوں کو اہل مغرب نے مسلمانوں کی نظروں میں مشکوک بنا دیا کیونکہ ان کی بعض کتب و تحقیقات میں موسیقی کے جواز و عدم جواز، الکوحل کے استعمال وغیرہ جیسے مسائل سامنے آئے۔ ابن سینا کی ٌالقانون فی الطبٌ نے اہل یورپ کو انگشت بدنداں تو کر دیا لیکن اس میں کوئی ایسی تحقیق یا اثر کرنے والی بات نہ تھی جسے بالخصوص اسلام کی کرامت کہا جاتا یا اس کے نتیجے میں لوگ عیسائیت سے تائب ہو کر اسلام قبول کرتے۔ اہل مغرب نے مسلمان محققین کی ان کاوشوں کو مذہبی پہچان نہ دے کر خالص انسانی تعلیمی تناظر میں ہی پرکھا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی و عیسائی طلباء طب نے ابن سینا کو ایک ٌمسلمان ماہر طبٌ تو سمجھا اور اس کی تحقیقات سے فائدہ اٹھایا لیکن یہ کتب تبلیغ دین کا ذریعہ نہ بن سکیں۔ تاہم مغربی معاشرے میں ان مسلمان محققین کے نام شہرت کی بلندیوں پر گئے تو اسلام کا جدید دور سے ہم آہنگ علمی چہرہ بھی عیاں ہوا۔

دنیا کے دیگر علاقوں کی نسبت برطانیہ میں اسلام کی آزادانہ تبلیغ و اشاعت تاخیر سے ہوئی۔ اس سلسلہ میں شمالی افریقی ریاستوں کے مسلمان تاجروں ا ور مشائخ کا کردار ملتا ہے۔   موجودہ لیبیا، مراکش، مصر اور تیونس جیسے افریقی عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان سپین اور فرانس پہنچے تو یہاں سے اسلام بذریعہ بحیرہ اوقیانوس اور بحیرہ آئرش برطانیہ میں داخل ہوا۔  برطانیہ میں اسلام کی تاریخ (ما بعد از 1800 عیسوی) پر مبنی کتاب The Infidel Within بھی اسی کی تائید کرتی ہے کہ فرانس اور برطانیہ کو ملانے والے نفق جس کا موجودہ نام “Channel Tunnel” ہے، یہی وہ راستہ تھا جہاں سے اسلام و مسلمین کا برطانیہ میں داخلہ ہوا۔

منگولوں کا یورپ پر حملہ بھی اسلامی تعارف کا سبب بنا:

برطانیہ میں اسلام اور مسلمانوں کے تعارف کا ایک سبب منگول جنگجو اور چنگیز خان جیسے درندہ صفت انسان بھی بنے۔  تیرھویں صدی عیسوی میں جب چنگیز خان کی قیادت میں بخارا ، سمر قند اور بغداد سمیت دیگر اسلامی علاقے فتح کرنے کے بعد منگولوں کے قافلے چنگیز خان کی قیادت میں یورپ پہنچے تو انہوں نے   وسطی و مشرقی یورپ کی متعدد ریاستوں پر قبضہ کر لیا۔ ترکی، جرمنی ، پولینڈ، بلغاریہ، رومانیہ اور آسٹریا کے متعدد علاقے منگولوں کے قبضے میں تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب عیسائی مذہبی رہنماؤں نے ہاتھ کھڑے کر دیے تھے ۔ بالآخر مذہب کا آخری سہارا لیتے ہوئے پوپ نے یورپ کے تمام حُکام اور بادشاہوں کے نام مراسلے و خطوط جاری کیے جس میں منگولوں کے اس قبضے اور حملے کو عذابِ خداوندی قرار دیا اور مل کر ان کا مقابلہ کرنے کی تجویز دی۔ اگست 1227 عیسوی میں چنگیز خان کی موت کے بعد اس کے سیاسی جانشین ایشیا میں کمزور پڑنے لگے۔ اس سے مسلمانوں نے فائدہ اٹھایا اور متحد ہو کر منگولوں پر حملے کیے۔ نتیجے میں منگولوں کی عسکری قوت تقسیم ہو گئی۔ منگولوں کی اس سیاسی و عسکری شکست و ریخت کا سب سے زیادہ فائدہ یورپ و برطانیہ کو ہوا، وہاں سے بھی منگولوں کا نکالا جانے لگا اور یوں مسلمانوں کی محنت سے اقوام یورپ کو بھی فائدہ ہوا۔

برطانیہ میں اسلامی تاریخ پر تین کتب کا خلاصہ:

اگر برطانیہ کے سرکاری ریکارڈ پر یقین کیا جائے تو   یہ واضح ہے کہ مملکت متحدہ برطانیہ کے قیام سن 1707 عیسوی سے ہی اسلام یہاں موجود ہے۔ عربی، انگریزی اور دیگر کتب بھی مملکت متحدہ کے قیام کے بعد ہی اسلام و مسلمین کے بارے زیادہ تفصیل سے بتاتی ہیں۔ دنیا میں بالعموم اور برطانیہ میں بالخصوص معتمد سمجھی جانے والی دو کتب The Infidel Within  اور  Muslims In Britain Since 1800 بھی مملکت متحدہ کے بعد کی اسلامی تاریخ پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں عیسائیت اتنی ہی مضبوط تھی جتنا موجودہ دور میں بلاد عرب و جنوبی ایشیا میں اسلام مضبوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اٹھارہ یا انیس صدیوں تک عیسائی مذہب   مستقل ترقی پاتا رہا اور پھر ایسا وقت بھی آیا کہ ویلز، سکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ میں عیسائی راہبوں کے مضبوط مراکز قائم ہوئے۔ یہ علاقے عیسائی مذہب کے پیروکاروں کے لیے دل و جان سے عزیز تر بن گئے۔ آج بھی مذکورہ تمام علاقوں میں عیسائی چرچ منظم ہیں اور وہاں مستقل بنیادوں پر ہفتہ وار عیسائی مذہب کی ترویج و اشاعت، تبلیغ اور وعظ کا اہتمام ہے۔

برطانیہ میں اسلام کی آمد کی ایک وجہ عیسائیت کی کمزوری بھی ہے:

مذکورہ بالا ساری بحث سے ایک خیال کو تقویت ملتی ہے کہ برطانیہ میں اسلام کی آمد تاخیر سے ہوئی ہے یا کم از کم اس کی نشر و اشاعت، مواصلاتی روابط اور   آزادانہ موجودگی   میں تاخیر ضرور ہوئی ہے۔ منگولوں سے متعلق جو اوپر مذکور ہوا اس میں یہ سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ ایشیا میں منگولوں کی شکست نے اقوام یورپ کو سنبھلنے کا موقع دیا تو اہل یورپ نے مختلف و کثیر الثقافتی انسانوں کو اپنے دامن میں جگہ دی۔  یہی وجہ ہے کہ برطانیہ اس وقت دنیا کے چند ان ممالک میں سے ہے جہاں ہر رنگ و نسل کے انسان آباد ہیں۔ برطانوی معاشرے میں اس نو آبادیاتی عمل کے دوران مختلف مراحل میں ایشیائی اور شمالی افریقی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی برطانیہ منتقل ہوئی۔ برطانوی معاشرے میں دیگر مذاہب بالخصوص اسلام کے داخلے کی گنجائش کا ایک سبب عیسائی مشینری کی کمزوری ہے۔ لوگ عیسائی مذہب سے بیزار ہونے لگے، سیاسی و سماجی سطح پر عیسائی مذہب پیچھے ہٹ گیا، عیسائی ریاستوں کے سیاسی اکابر اپنے رعایا اور امور سلطنت   کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ دنیا پر حکومت کا سوچنے لگے جس کی وجہ سے مذہبی اعتبار سے انہیں خسارہ ہوا۔ ڈاکٹر کلم براؤن   سکاٹ لینڈ کی معروف درس گاہ ٌیونیورسٹی آف ڈنڈیٌ میں مذہب   و تاریخی ثقافت کے استاذ ہیں، وہ اپنی معروف کتاب Religion and Society in Twentieth-century Britain میں ان حقائق کو تسلیم کرتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی کے اخیر میں عیسائیت برطانیہ میں کمزور پڑنے لگی اور بالآخر بیسویں صدی میں بد ترین مشکلات کا شکار ہوئی۔  ڈاکٹر کلم براؤن نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ 1950-1960 کے درمیان برطانوی عیسائیوں کا چرچ جانے کا گراف کمزور پڑا۔ (عیسائی) مذہبی عسکریت پسندی میں اضافہ ہوا۔ اس شدت، کمزوری اور اخلاقیات کی پستی کی وجہ سے لوگوں میں روحانی کمی واقع ہوئی۔ اگر مصنف موصوف کی باتوں سے میں نتیجہ اخذ کروں تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس روحانی تشنگی نے اسلام جیسے فطری و محبت بھرے دین کو برطانیہ میں پھیلنے کا موقع دیا۔

انیسویں صدی میں اسلام اور برطانیہ :

1858 عیسوی میں برصغیر میں برطانوی راج کا آغاز ہوا تو   ہندوستانی مسلمانوں کے علاوہ دیگر ایشیائی ریاستوں سے مسلمانوں کا برطانیہ میں آنا جانا شروع ہوا۔ بظاہر تو برطانوی حکومت اپنے سیاسی و معاشرتی اغراض و مقاصد کے لیے مسلمانوں کو برطانیہ جانے میں معاونت فراہم کرتی لیکن مسلمانوں کے برطانیہ جانے سے اسلام کا تعارف مزید بہتر ہونے لگا۔ بیسیویں صدی کے آغاز میں برصغیر کے مسلمانوں نے جوق در جوق ہجرت کی۔ موجودہ ہند و پاک کے سرحدی علاقے ٌکَچھٌ ، راجستھان، جنوبی ہند، کشمیر اور   دیگر علاقوں سے ہجرت کرنے والے مسلمان مشرقی افریقہ کے ساحلی علاقوں (ممباسا، دار السلام، زمبیا)، موریشیس، مالدیپ، سری لنکا، سنگاپور اور ملائیشیا کے صوبے ٌکِدہٌ پنانگ، اور کوالالمپور تک پہنچے۔    ان کی ہجرت کی متعدد وجوہات میں معاشی ترقی اور سماجی مظالم سے نجات   حاصل کرنا تھا۔ اسی دور میں مسلمانانِ ہند کی ایک بڑی تعداد افریقی ساحلوں سے ہوتے ہوئے یورپ تک جا پہنچی۔   اوپر مذکور کتاب The Infidel Within میں بھی ایک ایسے ہندوستانی مسلمان کی داستان موجود ہے جس نے   1919 میں سکاٹ لینڈ ہجرت کی تھی، یہ کہانی نتھو محمد خان کی ہے جو ایک بحری جہاز پر ملازمت کرتے تھے۔ نتھو محمد خان بتاتے ہیں کہ انہوں نے کپڑے کی تجارت شروع کی، پھر اپنے بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کو بلایا۔    برطانیہ منتقل ہونے کے بعد انہوں نے اپنے گاؤں ٌٹنڈو محمد خانٌ (جو کہ بظاہر سندھ یا جنوبی پنجاب پاکستان میں واقع محسوس ہوتا ہے) کے آس پاس کے تقریبا دس کلومیٹر میں مقیم اکثر خاندانوں کو برطانیہ منتقل ہونے میں معاونت فراہم کی۔  ہجرت کی اس داستان سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ بڑی تعداد میں برطانیہ منتقل ہوئے ہیں اور یہ اپنے ساتھ قرآن، مسجد اور وعظ و نصیحت کا کلچر بھی لے کر گئے تھے۔

The Infidel Within کتاب کے مصنف ڈاکٹر ہمایوں انصاری   جنوبی ایشیائی مسلمانوں کی اس ہجرت کے بعد ہونے والے تغیرات   سے متعلق جو کچھ لکھتے ہیں اس سے یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ برطانوی معاشرے میں افراط و تفریط کے شکار مذہبی لوگوں نے مسلمانوں کے ساتھ کوئی اچھا سلوک روا نہیں رکھا۔ بلکہ انہیں ذہنی طور پر اذیت پہنچا کر یہ دریافت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی کہ یہ مذہب کو اپنی پہچان سمجھتے ہیں یا پھر قومیت کو۔ اہل مغرب کی سلطنت عثمانیہ کے ساتھ جاری خلفشار و تنازعات کے اثرات بھی ان مسلمانوں کو براداشت کرنے پڑے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس دور کے اچھے اخبارات اور جرائد مثلاً ’دی ٹائمز‘، ’دی کنٹیمپریری ریویو‘ اور ’نائنٹینتھ سنچری‘ میں سلطنت عثمانیہ کے بارے میں انتہائی سخت مضامین شائع ہوئے اور ایک مبصر نے اس کو ایسی سلطنت قرار دیا جو ’ بڑی عیسائی دشمن‘ اور ’غیر مہذب‘ ہے جس کے بنیاد قتل، زنا بالجبر اور ایک سے زیادہ شادیوں کی رسم پر ہے۔ پروفیسر ہمایوں انصاری لکھتے ہیں کہ مغرب نے ایک ایسے اسلام کی تصویر بنائی اور پھر اسے بدنام کیا جس کا بہت سے مسلمانوں کی زندگیوں میں اظہار نہیں ہوتا۔

برطانیہ کی اولین مسجد

بیسیوں صدی کے وسطی برسوں میں مسلمانوں کو مذکورہ بالا مسائل کا سامنا ہوا تو   یہ ضرورت بھی محسوس کی گئی کہ برطانیہ میں مساجد و مدارس کی تعمیر کی جائے، علماء کرام اور مبلغین بلائے جائیں۔ برطانیہ میں سب سے پہلی مسجد   1889 عیسوی میں لندن سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع  ٌووکنگٌ کے علاقے میں قائم ہوئی۔ اس مسجد کی کہانی اور پس منظر بہت دلچسپ ہے۔ ہنگری سے تعلق رکھنے والے ایک مستشرق ڈاکٹر ٌگاٹلیب ولہیلم لائٹ نر ٌ متعدد مشرقی زبانوں بشمول اردو ، عربی اور فارسی پر مکمل عبور رکھتے تھے۔  انہوں نے ایشیائی زبانوں پر تحقیق کے بعد ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ 1866ء میں ڈاکٹر لائٹ نر کو انڈین سول سروسز کے ذریعے   گورنمنٹ کالج لاہور میں پرنسپل تعینات کیا گیا۔ لاہور میں تعیناتی نے ڈاکٹر لائٹ نر کو اسلام و مسلمین اور اقوام مشرق سے قریب تر کر دیا۔ بعد ازاں مختلف یورپی ممالک کے دورے کیے اور 1884 ء میں وہ ٌسرےٌ کے علاقے میں پہنچے جہاں ایک خستہ حال عمارت برائے فروخت تھی، موصوف نے یہ جگہ خرید کر یہاں اوریئنٹل یونیورسٹی بنانے کا پروجیکٹ شروع کیا جو جلد ہی فنڈز کی کمی کا شکار ہو کر کسی اور ہاتھوں بیچ دیا گیا۔  1880 میں یہ جگہ الفریڈ نامی ایک برطانوی شہری نے خرید لی، بعد ازاں ڈاکٹر لائٹ نر نے یہ جگہ الفریڈ سے حاصل کر کے یہاں مشرقی زبانوں کی تدریس شروع کی اور اس ادارے کا الحاق پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا گیا۔ یہاں پڑھنے والے طلبا کو حاصل ہونے والی اسناد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے جاری ہوتی تھیں۔  اس ادارے میں زیر تعلیم طلباء کی اکثریت مسلمان تھی اور جو غیر مسلم تھے وہ مشرقی زبانوں کے ساتھ ساتھ مذہب اسلام سے بھی واقفیت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر لائٹ نر ایک ٌعملی کامٌ پر یقین رکھنے والے استاذ تھے۔ انہوں نے اسی عمارت کے احاطے میں ایک مسجد تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن یہاں فنڈز کی کمی رکاوٹ بنی۔

لاہور میں قیام کے دوران ڈاکٹر لائٹ نر بھوپال کی ملکہ شاہجہاں بیگم کی اسلام دوستی ، سخاوت و فیاضی سے بخوبی واقف ہو چکے تھے۔  شاہجہاں بیگم کو جب اس منصوبے کی خبر ملی تو فوری طور پر ایک خطیر رقم ووکنگ کی اس مسجد کے لیے بھجوا دی۔ شاہجہاں بیگم کے اس عظیم تاریخی کام کی وجہ سے اس مسجد کو انہی سے موسوم کر دیا گیا۔ نومبر 1889 سے یہ مسجد عبادت کے لیے کھلی ہے۔ کچھ عرصہ تک یہ مسجد قادیانیوں کے قبضے میں بھی رہی لیکن پاکستان کی قومی اسمبلی کی متفقہ قرار داد جس میں قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا تھا، اس کے نافذ ہونے کے بعد یہ مسجد واپس اہل اسلام کو مل گئی۔ سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وزیر مذہبی امور مولانا کوثر نیازی جب برطانیہ یاترا کے دوران اس مسجد کو دیکھنے گئے تو حکومت پاکستان نے اس مسجد کی مالی ذمہ داری اٹھا لی۔ حکومت پاکستان اس مسجد کو مستقل وظیفہ دیتی ہے اور برطانیہ میں پاکستانی سفیر اس مسجد کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے چئیرمین ہوتے ہیں ۔ شدت پسند عناصر کی طرف سے دو بار اس مسجد کو شہید کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن اللہ تعالٰی نے اس تاریخی مرکز کو   محفوظ رکھا۔

1960 کے بعد برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ:

برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی میں نمایاں اضافہ 1960-1970 کی دہائی میں ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب برطانوی اور امریکی تعمیراتی کمپنیوں نے پاکستان میں منگلا ڈیم کی تعمیر شروع کی تو اس زمین پر آباد لوگوں کو دونوں ملکوں کی حکومتوں کی مدد سے برطانیہ منتقل کیا گیا۔ اس خصوصی پیکج یا آفر کے دوران ہزاروں کشمیری خاندان برطانیہ منتقل ہوئے۔ برطانیہ ہجرت کرنے والے ان تمام خاندانوں کا تعلق اہل سنت و جماعت سے تھا۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیری علاقے ڈڈیال، میرپور، منگلا، چکسواری، اسلام گڑھ، کاکڑہ ٹاؤن، خادم آباد، کٹھاڑ، کے علاوہ پنجاب کی حدود میں واقع دینہ، منگلا ہملٹ، دڑنی، پنڈوڑی ،جہلم، اور تحصیل گوجرخان کے متعدد خاندان برطانیہ منتقل ہوئے۔ برطانیہ کی تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کی تعداد میں یک دم یہ اضافہ ہوا جس کی وجہ سے سیاسی و سماجی اختلافات بھی سامنے آئے۔ مسلمان کم تعلیم یافتہ تھے اس لیے زیادہ تر فیکٹریوں اور مِلو ں میں کام کرنے والے مزدور ہی تھے۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی میں مزید اضافہ یوں ہوا کہ برطانیہ کی شہریت حاصل کرنے والے خاندانوں نے اپنی اولادوں کی شادیاں اپنے آبائی علاقوں یعنی پاکستان یا ہندوستان میں ہی کیں۔ یوں مزید لوگ برطانیہ ہجرت کرتے گئے۔ مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی و معاشرہ قائم ہونے کے بعد ضروری تھا کہ اب وہاں وعظ و تبلیغ کے لیے اسلامی مراکز و مساجد کی تعمیر بھی کی جائے۔

برطانیہ پہنچنے والے چند اولین سنی علما و مشائخ:

ہند و پاک سے جو علماء و مشائخ سب سے پہلے برطانیہ میں پہنچے ان میں صوفی محمد عبد اللہ خان گھمکولوی، پیر علاؤالدین صدیقی، پیر معروف حسین شاہ، پیر سید عبد القادر شاہ جیلانی، پیر سید زاہد حسین شاہ رضوی، سلطان فیاض الحسن قادری، سلطان نیاز الحسن قادری، صوفی محمد اسلم نقشبندی شاد پوری، علامہ پیر عبد الوھاب صدیقی، مفتی محمد اشفاق رضوی، مولانا محمد بوستان قادری، پیرزادہ امداد حسین ، مفتی گل رحمٰن قادری، علامہ ظفر محمود فراشوی، علامہ احمد نثار بیگ، علامہ قمر الزمان اعظمی،علامہ صاحبزادہ حبیب الرحمٰن سمیت دیگر کئی علما و مشائخ شامل ہیں جن کے اسمائے گرامی یہاں لکھنا مشکل ہے۔

ان تمام علماء و مشائخ کی محنت و کوشش سے برطانیہ کے طول و عرض میں مساجد تعمیر ہوئیں۔ ان میں قابل ذکر جامع مسجد گھمکول شریف جو کہ صوفی محمد عبد اللہ خان صاحب کی کو کوشش سے برمنگھم میں تعمیر ہوئی۔ یہ مسجد مغربی یورپ کی بڑی مسجد ہے اور یہاں بیک وقت پانچ ہزار سے زائد لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے معروف بزرگ پیر علاؤالدین صدیقی علیہ الرحمہ کی کاوشوں سے مختلف علاقوں میں محی الاسلام صدیقیہ مساجد و مراکز قائم ہوئے۔ پیرزادہ امداد حسین صاحب کی محنت سے ریٹ فورڈ کے علاقے میں عظیم الشان جامعہ الکرم قائم ہوا جہاں مکمہ درسِ نظامی کی تدریس جاری رہے۔ صاحبزادہ علامہ حبیب الرحمٰن نے بریڈ فورڈ میں صفۃ الاسلام کے نام سے تدریسی مرکز تعمیر کروایا، یہاں بھی درس نظامی مکمل پڑھایا جاتا ہے۔ حال ہی میں دعوت اسلامی کی طرف سے بریڈ فورڈ میں جامعۃ المدینہ کا قیام ہوا ہے۔ اس ادارے میں طلباء کی رہائش کا بھی انتظام ہے اور مروجہ دینی علوم بھی پڑھائے جا رہے ہیں، امید کی جا سکتی ہے کہ یہ ادار مستقبل میں اہل سنت کا برطانیہ میں سب بڑا مرکز ہو گا۔ یہ لکھتے ہوئے انتہائی افسوس ہو رہا ہے کہ پورے برطانیہ میں ابھی تک درسِ نظامی اور مروجہ دینی تعلیم کے مراکز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اکابرین اہل سنت کو اس جانب فی الفور توجہ کی ضرورت ہے اور ہر کاؤنٹی میں کم از کم ایک ایسا دارالعلوم تعمیر ہونا چاہیے جہاں مسلمانوں کے بچے درسِ نظامی کی تعلیم علاقائی و عربی زبان میں حاصل کر سکیں۔

برطانیہ کے مسلمان سیاستدان:

ہجرت کے بعد مسلمانوں نے برطانوی سماج میں اپنے قدم مضبوط کیے تو شعور کی کھلتی ہوئی آنکھوں نے میدان سیاست کی ضروریات پر توجہ مرکوز کی۔ پاکستانی وہ ہندوستانی پس منظر رکھنے والے ان برطانوی نژاد باشندوں نے برطانوی شہروں کی بلدیہ، لوکل کونسل، سٹی کونسل سے لے کر ہاؤس آف لارڈز اور پارلیمان تک انتخابات میں حصہ لیا اور اپنے نام و کام کا لوہا منوایا۔ چند برطانوی مسلمان شخصیات کے نام درج ذیل ہیں؛

لارڈ نذیر احمد، حمزہ یوسف، حنظلہ ملک، انس سرور، بشیر احمد، لارڈ قربان حسین، افضل خان ، امجد بشیر، شبانہ محمود، سعیدہ وارثی، نصرت غنی، روشن آراء علی ، خالد محمود، یاسمین قریشی اور سید کمال جیسے اراکین پارلیمنٹ و لارڈز شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بیسیوں مسلمان ایسے ہیں جو پارلیمنٹ، ہاؤس آف لارڈز اور یورپین پارلیمنٹ کے اراکین رہ چکے ہیں اور کچھ موجودہ سیاست میں بھی پیش پیش ہیں۔

ان کے علاوہ برطانیہ کے کئی بڑے شہروں بشمول لندن، برمنگھم، شیفیلڈ، بلیک برن، لیڈز، آکسفورڈ، اولڈھم، لوٹن، روچڈیل وغیرہ کے لارڈ مئیرز بھی مسلمان رہ چکے ہیں۔

برطانیہ میں اسلام کے نام پر قادیانیوں کی موجودگی:

چونکہ برطانیہ ایک آزاد خیال جمہوری ملک ہے جہاں ایسا نظام رائج ہے جو فکری آزادی کے ساتھ ساتھ بعض اوقات اخلاقی پامالی کا سبب بھی بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلاد اسلامیہ میں بالعموم اور ہند و پاک میں بالخصوص متفقہ کافر قرار دیے گئے مرزائی قادیانی مذہب کے پیرو کار برطانیہ میں خود کو مسلمان ہی قرار دیتے ہیں۔ برطانوی قوانین اور معاشرے کی اس نرمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانیوں نے لندن میں ایک بہت بڑا مرکز قائم کر رکھا ہے جسے ٌ بیت الفتحٌ کہا جاتا ہے۔ یہ قادیانیوں کا بین الاقوامی ہیڈ کوارٹر ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی کوئی واقعہ ہو، یا اس کے ردِ عمل کے طور پر جب برطانوی مسلمان احتجاج کریں تو قادیانی مسلمانوں کی صفوں میں کھڑے ہو کر اس احتجاج یا جلوس کا حصہ ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے تاحال مسلمانانِ برطانیہ یہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے کہ برطانوی سرکاری ریکارڈ میں قادیانیوں کو غیر مسلم لکھوایا جا سکے۔ اس کی وجہ مسلمانوں کے درمیان موجود باہمی اختلافات، عدم اتفاق اور فرقہ وارانہ تقسیم ہے۔ مسلمانوں کی اسی تقسیم سے قادیانیوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ، سرکاری و نیم سرکاری اداروں بشمول ائیرپورٹ، فوج ، پولیس اور دیگر اہم عہدوں پر قادیانی ملازمین موجود ہیں جو ایک منظم سازش و مہم کے تحت اسلام و مسلمین کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ دراز کیے ہوئے ہیں۔

برطانیہ کے سرکاری ریکارڈ سمیت دیگر بین الاقوامی جرائد، صحافتی حلقے، سرکاری دفاتر و ذرائع ابلاغ میں قادیانیوں کو مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ لکھا اور سمجھا جاتا ہے۔   برطانیہ میں جماعت احمدیہ کے سربراہ کو کسی بھی اعلٰی سرکاری شخصیت کے برابر پروٹوکول، حفاطتی دستے اور سرکاری مدد حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قادیانیوں کا مرکز بیت الفتح کسی بھی اسلامی مسجد سے بڑا، وسیع و عریض اور اعلٰی نمونے پر تعمیر شدہ ہے۔ اس مرکز کو جدید ڈیجیٹل سہولیات بھی دی گئی ہیں جہاں سے ہر جمہ کے دن خطبہ براہ راست نشر کیا جاتا ہے۔   افریقہ کے مختلف غریب علاقوں کے مفلوک الحال مسلمانوں کے ایمانوں کا سودا بھی لندن میں بیٹھ کر ہی کیا جاتا ہے جہاں قادیانی امداد اسلام کے نام پر پہنچائی جاتی ہے اور بعد ازاں یہی لوگ لاشعوری کا سفر کرتے کرتے دین اسلام سے ہی دور ہ ہو جاتے ہیں۔ برطانیہ میں قادیانیوں کی مضبوطی کا یہ عالم ہے کہ مسلمان خطباء اور مبلغین ان کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکتے اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ برطانیہ میں ان کے خلاف بات کرنے پر پولیس ایکشن ہوتا ہے۔ مسلمانان برطانیہ کو مقامی و بین الاقوامی علماء و مشائخ اور ماہرین کی مدد لے کر اس معاملے سے نمٹنا ہو گا ورنہ یہ آگے کوئی گلستان جلا دے گی۔

وما توفیقی الا باللہ

اپنی رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *