از:علامہ افتخار الحسن رضوی
انسان کی فطرت ہے کہ جب خوشی ملے تو رب کو بھول جاتا ہے اور جب غم پہنچے تو تقدیر و قادر عزوجل سے شکوے کرتا ہے۔ ایک اطاعت گزار اور مطیع و تابع فرمان بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے معبود و مالک کریم کی بارگاہ میں ہر حال میں جھکا رہے، اس کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کا سلسلہ رکھے، تکبر، غرور اور نفس کی سرکشی کو خود پر حاوی نہ ہونے دے۔ بڑے سے بڑے رتبہ، مقام اور عہدہ مل جائے پھر بھی اپنی حقیقت کو نہ بھولے۔ ملائکہ کے سردار حضرت جبریل امین علیہ السلام کو ایک بار نبی اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے اِبلیسِ خَسِیس کے اَنجامِ بد سے عِبرت گِیر ہو کر کعبہ مُشَرَّفہ کے پردے سے لپٹ کر نہایت گِریہ وزاری کے ساتھ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں یہ دُعا کر رہے ہیں :
”اِلٰھِی وَسَیِّدِیْ لَا تُغَیِّرْ اِسْمِیْ وَلَا تُبَدِّلْ جِسْمِیْ
ترجمہ: اے میرے اللہ ! اے میرے مالک عزوجل! کہیں میرا نام نیکوں کی فہرست سے نہ نکال دینا اور کہیں میرا جسم اہلِ عطا کے زُمرے سے نکال کر اہلِ غضب کے گروہ میں شامل نہ فرما دینا ۔”
(منہاج العابدین ، ص۱۵۸ )
اگر آج آپ بڑے عہدے پر ہیں، آپ حکومت میں ہیں یا مذہبی میدان میں لوگ آپ کو پیر و امام اور شیخ و مرشد تصور کرتے ہیں، یا آپ مفتی دین ہیں اور لوگ آپ سے مسائل دینیہ پوچھتے ہیں تو یہ اللہ کی عطا ہے، اس کا فضل ہے، وہ دے کر بھی آزماتا ہے اور محروم رکھ کر بھی آزماتا ہے۔ خوشی اور عہدہ، منصب و سرفرازی کے اس سفر میں آپ کے لب و لہجے اور اخلاق و تعلقات میں عاجزی و انکساری کا درجہ بڑھ جانا چاہیے ، نہ کہ تکبر و غرور اور لہجے میں سختی و اکڑ ظاہر ہونا شروع ہو جائے۔ کیونکہ جس مالک نے آج نوازا ہے وہ کل محروم بھی کر سکتا ہے۔ اس دنیا کی یہ حقیقت ہے کہ صبح کے بادشاہ شام تک فقیر بن جاتے ہیں اور حقیقی بادشاہ کی بادشاہی ہمیشہ قائم و دائم ہے۔ انسان تو خطا کا پتلا اور گناہوں کا عادی ہے، اللہ تعالٰی کی وہ مخلوق جو عیوب و نقائص اور معصیت و خطا سے پاک ہے یعنی ملائکہ معصومین انہیں بھی خدائے بزرگ و برتر کی پکڑ اور گرفت کی فکر کھائے جاتی ہے۔ جب اِبلیس کے مَردُود ہونے کا واقعہ ہوا تو حضرتِ سیِّدُنا جبرائیل اور حضرتِ سیِّدُنا میکائیل عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رونے لگے تو رب تعالیٰ نے دریافت کیا (حالانکہ سب کچھ جانتا ہے)کہ ”تم کیوں روتے ہو؟
”انہوں نے عرض کی:”اے رب عَزَّوَجَلَّ ! ہم تیری خُفیہ تدبیر سے بے خوف نہیں ہیں۔رب تعالٰی نے اِرشاد فرمایا:”تم اِسی حالت پر رہنا۔”
(الرسالۃ القشیریۃ،باب الخوف، ص۱۶۶)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر حالت میں انسانوں کے ساتھ بھی عاجزی والا سلوک رکھو اور مالکِ حقیقی کے سامنے بھی توبہ و استغفار کا معاملہ رکھو۔ دولت و شہرت بڑھ جائے تو ذکر و درود بھی بڑھا دو، مخلوق کے ساتھ حسنِ سلوک میں مزید بہتری لے آؤ۔ یہی کامیابی کا ذریعہ ہے۔

انسان کی فطرت ہے کہ جب خوشی ملے تو رب کو بھول جاتا ہے اور جب غم پہنچے تو تقدیر و قادر عزوجل سے شکوے کرتا ہے۔ ایک اطاعت گزار اور مطیع و تابع فرمان بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے معبود و مالک کریم کی بارگاہ میں ہر حال میں جھکا رہے، اس کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کا سلسلہ رکھے، تکبر، غرور اور نفس کی سرکشی کو خود پر حاوی نہ ہونے دے۔ بڑے سے بڑے رتبہ، مقام اور عہدہ مل جائے پھر بھی اپنی حقیقت کو نہ بھولے۔ ملائکہ کے سردار حضرت جبریل امین علیہ السلام کو ایک بار نبی اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے اِبلیسِ خَسِیس کے اَنجامِ بد سے عِبرت گِیر ہو کر کعبہ مُشَرَّفہ کے پردے سے لپٹ کر نہایت گِریہ وزاری کے ساتھ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں یہ دُعا کر رہے ہیں : ''اِلٰھِی وَسَیِّدِیْ لَا تُغَیِّرْ اِسْمِیْ وَلَا تُبَدِّلْ جِسْمِیْ
اپنی رائے دیں