رسول اللہ ﷺ کے پہلے خلیفہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

رسول اللہ ﷺ کے پہلے خلیفہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ


(علامہ افتخار الحسن رضوی)

مصطفٰی جانِ رحمت ﷺ سفر ِ معراج سے واپس تشریف لائے تو اگلی صبح مکہ کے لوگوں کے سامنے لیلۃ المعراج کے واقعات سنائے، اس پر مشرکین مکہ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا کر سوال کیا؛

هَلْ لَکَ اِلٰی صَاحِبِکَ يَزْعُمُ اَسْرٰی بِهِ اللَّيْلَةَ اِلَی بَيْتِ الْمَقْدَس؟

’’کیا آپ اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں جو آپ کے دوست نے کہی ہے کہ انہوں نے راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کی؟ ‘‘

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ ﷺ نے واقعی یہ بیان فرمایا ہے؟

انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

لَئِنْ کَانَ قَالَ ذٰلِکَ لَقَدْ صَدَق۔

’’اگر آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ہے تو یقینا سچ فرمایا ہے اور میں ان کی اس بات کی بلا جھجک تصدیق کرتا ہوں ‘‘۔

انہوں نے کہا: ’’کیا آپ اس حیران کن بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آج رات بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے؟‘‘

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

نَعَمْ! اِنِّیْ لَاُصَدِّقُهُ فِيْمَا هُوَ اَبْعَدُ مِنْ ذٰلِکَ اُصَدِّقُهُ بِخَبْرِ السَّمَاءِ فِیْ غَدْوَةٍ اَوْ رَوْحَة.

’’جی ہاں! میں تو آپ ﷺ کی آسمانی خبروں کی بھی صبح و شام تصدیق کرتا ہوں اور یقینا وہ تو اس بات سے بھی زیادہ حیران کن اور تعجب والی بات ہے‘‘۔ (المستدرک علی الصحيحين، الرقم: 4515)

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس صدق و یقین کے پیچھے براہِ راست رسول اللہ ﷺ کی تربیت، صحبت اور کامل محبت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کفارِ مکہ کی اس ہرزہ سرائی کے مقابلے میں “ایمان بالغیب” کا بہترین نمونہ پیش فرمایا۔ جنابِ صدیق اکبر کو رسول اللہ ﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ میں ہی امت کی امامت و قیادت کے متعدد امور پر نگران مقرر کر دیا گیا تھا اور رسول کریم ﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ کے آخری ایام میں آپ کو مصلٰی رسول ﷺ پر کھڑا کیا گیا اور یوں امامت کی امانت آپ کے سپرد کی گئی۔   آپ رضی اللہ عنہ امت محمدیہ کے متقین اور صاحبان عدل و انصاف کے امام ہیں۔ آپ کی خلافت و حکومت برکات سے بھرپور تھی۔ بارگاہِ مصطفوی ﷺ سے براہِ راست تربیت پانے والے   خلیفہ اول بلا فصل نے اس مسند پر جلوہ افروز ہونے کے فوری بعد اپنے اولین خطبہ میں فرمایا؛

ایھا الناس قد ولیت علیکم وسلت بخیر کم فان احسنت فاعیونی و ان اسات فقومونی الصدق امانة والکذاب خیانة والضعیف فیکم قوی عندی حتی اخذله حقه والقویٰ ضعیف عندی حتی اخذ منه الحق ان شاء اللہ تعالی۔ لا پدع منکم الجھاد فانه لا یدعه قوم لا اضربھم اللہ بالذل اطیعونی ما اطعت اللہ و رسوله فاذا عصیت اللہ و رسوله فلاطاعة لی علیکم قوموا الی صلواتکم رحمکم اللہ

ترجمہ: ” اے لوگو! میں تمہارا حاکم بنا دیا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں ٹھیک ٹھیک رہوں تو میری مدد کرو اور اگر بری راہ اختیار کر لوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچ امانت اور جھوٹ خیانت ہے اور تم میں جو کمزور ہے ، وہ میرے نزدیک قوی ہے۔ جب تک میں اس کا حق اسے نہ دلوا دوں اور قوی میرے نزدیک کمزور ہے جب تک میں اس سے حق واپس نہ لے لوں کوئی شخص جہاد ترک نہیں کرے گا کیونکہ اللہ جہاد چھوڑنے والوں پر ذلت ڈال دیتا ہے۔ تم میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا رہوں اور جب نافرمانی کرنے لگوں تو میری اطاعت نہ کرو۔ اچھا اب نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ اللہ تم پر رحم فرمائے”۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نبی پاک ﷺ کے یارِ غار نے اپنے اولین خطبہ میں جو وعدہ فرمایا اس پر پوری زندگی عمل فرمایا اور اس خطبہ کے زیر و زبر میں بھی عملاً تبدیلی نہ ہونے دی۔ شریعت کی پاسداری، فرائض کی پابندی اور سنت پر استقامت کو ہر حال میں مقدم رکھنے والے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے “ریاست مدینہ” کی حدود میں رہنے والے تمام لوگوں کے لیے مساوات اور Equal Opportunity کو یقینی بنایا۔ بحیثیت حاکمِ وقت آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی تنخواہ اتنی ہی مقرر فرمائی جتنی مدینہ میں ایک عام مزدور کی تنخواہ رائج تھی۔ اب سوال یہ تھا کہ وظیفہ کی مقدار کتنی ہو؟ اس موقع پر حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ ” جتنا مدینے کے کسی ایک مزدور کی آمدنی ہوتی ہے اتنا کافی رہے گا”۔ عرض ہوا کہ اتنی کم تنخواہ میں گزارہ نہ ہو سکے گا۔ آپ نے فرمایا “اگر اس سے ایک عام آدمی کے گھر کا گزارہ ہوسکتا ہے تو خلیفہ کا بھی ہونا چاہیے۔ اگر نہیں ہوسکتا تو ایک عام مزدور کس طرح گزارہ کرتا ہوگا”؟ ۔ چنانچہ خلافت اسلامی کے اس پہلے تاجدار کا وظیفہ ایک عام مزدور کے مساوی مقرر ہوا۔   بعد ازاں آپ نے اس قلیل رقم میں مزید کمی کروا دی۔ واقعہ یوں ہے کہ آپ کو میٹھا مرغوب تھا۔ اب روز جو مقدار بیت المال سے عطا ہوتی اس میں ہی گزارہ کرنا دشوار تھا چہ جائیکہ میٹھا کہاں سے آتا ؟ آپ کی زوجہ محترمہ نے یہ کیا کہ روز جو آٹا بیت المال سے آتا تھا اس میں سے چٹکی چٹکی جمع کرنا شروع کردیا۔ جب اس کی مقدار زیادہ ہوگئی تو ایک روز میٹھا تیار کرکے دسترخوان پر رکھا گیا۔ آپ نے فرمایا ” یہ کہاں سے آیا؟ “۔ زوجہ محترمہ نے عرض کیا ” گھر میں بنایا ہے” آپ نے فرمایا ” جو مقدار ہم کو روزانہ ملتی ہے اس میں تو اس کی تیاری ممکن نہیں؟”۔ زوجہ محترمہ نے سارا ماجرا عرض کیا۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا ” اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم کو اتنی مقدار ( جو روز کفایت کی گئی) ہم کو روزانہ زیادہ ملتی ہے اس سے کم میں بھی گزارہ ہوسکتا ہے۔ لہذا اس کو بیت المال میں داخل کروا دیا جائے اور آئندہ سے روزانہ ملنے والے وظیفے سے یہ مقدار کم کردی جائے”۔

آپ رضی اللہ عنہ نے جب منصبِ خلافت سنبھالا تو دوسرے روز کچھ چادریں لے کر بازار جارہے تھے، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟ فرمایا: بغرض تجارت بازار جارہا ہوں۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اب آپ رضی اللہ عنہ یہ کام چھوڑ دیجئے، اب آپ لوگوں کے خلیفہ (امیر) ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میں یہ کام چھوڑ دوں تو پھر میرے اہل و عیال کہاں سے کھائیں گے؟ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: آپ رضی اللہ عنہ واپس تشریف لے چلیں، اب آپ رضی اللہ عنہ کے یہ اخراجات حضرت سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ طے کریں گے۔ پھر یہ دونوں حضرات حضرت سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور ان سے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل و عیال کے واسطے ایک اوسط درجے کے مہاجر کی خوراک کا اندازہ کرکے روزانہ کی خوراک اور موسم گرما و سرما کا لباس مقرر کیجئے لیکن اس طرح کہ جب پھٹ جائے تو واپس لے کر اس کے عوض نیا دے دیا جائے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے آدھی بکری کا گوشت، لباس اور روٹی مقرر کردی۔ (تاريخ الخلفاء، امام سيوطی، ص59)

اللہ اکبر اللہ اکبر یہ وہ عظیم ہستی تھی جس نے فقر کی وہ مثالیں قائم کر دیں کہ کل کائنات کے چہار کونوں میں کسی بھی قرن و زماں کے انسان ابو بکر صدیق جیسا خوفِ خدواندی ، تقوٰی و طہارت اور استقامت و کرامت کا کامل نمونہ تلاش نہ کر پائے گی۔

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت نقل کی ہے امام عالی مقام سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: دیکھو! یہ اونٹنی جس کا ہم دودھ پیتے ہیں اور یہ بڑا پیالہ جس میں کھاتے پیتے ہیں اور یہ چادر جو میں اوڑھے ہوئے ہوں یہ سب بیت المال سے لیا گیا ہے۔ ہم ان سے اسی وقت تک نفع اٹھاسکتے ہیں جب تک میں مسلمانوں کے امور خلافت انجام دیتا رہوں گا۔ جس وقت میں وفات پاجائوں تو یہ تمام سامان حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دے دینا۔ چنانچہ جب آپ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے یہ تمام چیزیں حسب وصیت واپس کردیں۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چیزیں واپس پاکر فرمایا:

’’اے ابوبکر! اللہ آپ پر رحم فرمائے کہ آپ نے تو اپنے بعد میں آنے والوں کو تھکادیا ہے‘‘۔

آپ رضی اللہ عنہ کا دور اسلام کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا ۔ جس معاملہ میں نبی کریم ﷺ کا حکم موجود دیکھا اس پر عمل کروانے میں کبھی تاخیر نہ فرمائی۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد بہت سے عرب قبائل میں ارتداد کی وباء پھیل گئی نو مسلم قبائل جن دلوں میں نور ایمان کی چمک پوری طور پر منعکس نہیں ہوئی تھی ایک ایک کر کے مرتد ہونے لگے۔ یہ وقت اسلام کے لیے بڑا نازک تھا۔ بعض صحابہ نے مشورہ دیا کہ کچھ عرصہ کے لیے لشکر اسامہ کی روانگی ملتوی کر دی جائے اور پہلے مرتدین سے نمٹ لیا جائے لیکن حضرت ابو بکر نے اس مشورہ کو قبول نہ کیا۔ آپ نے فرمایا: ” میں اس جھنڈے کو نہیں کھول سکتا جسے رسول اکرم ﷺ نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے باندھا ہو۔” پھر بعض صحابہ نے عرض کیا کہ “اسامہ کی بجائے جو جو ایک نوعمر اور ناتجربہ کار شخص ہیں کسی اور کو سردار بنا دیجئے۔” ابو بکر صدیق نے غصہ ہو کر فرمایا: ” جسے خدا کے رسول نے سردار بنایا ہو مجھے اسے معزول کرنے کا کیا حق ہے؟ اللہ اکبر ۔ جہاں حکمِ رسول ﷺ موجود ہو وہاں ابو بکر کسی ” مصلحت” کا شکار نہ ہوئے۔

حضرت ابو بکر نے لشکر اسامہ کو روانگی کا حکم دیا اور یکم  ربیع الثانی  گیارہ ہجری کو یہ لشکر روانہ ہوا۔ اس لشکر کو رخصت کرنے کے لیے حضرت ابو بکر خود کچھ دور تک تشریف لے گئے اس طرح کہ اسامہ گھوڑے پر سوار تھے اور آپ ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ اسامہ نے عرض کیا کہ اے خلیفتہ الرسول! آپ بھی سوار ہو جائیں ورنہ مجھے اجازت دیجیے کہ میں بھی پیدل ہو جاؤں۔ حضرت ابو بکر صدیق نے جواب دیا:

“خدا کی قسم دونوں باتوں میں سے ایک بھی نہیں ہو سکتی۔ کیا حرج ہے اگر میں خدا کے راستہ میں تھوڑی دور تک اپنے پاؤں غبار آلود کر لوں جبکہ غازی کے ہر قدم کے بدلے سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں”۔

یوں نصرت و دعائے صدیقی کے ساتھ یہ لشکر روانہ ہوا اور اسلام و مسلمین کی خاطر شام اور اس کے اردگرد میں کثیر فتوحات کا دروازہ کھولنے میں کامیاب ہوا۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں قیصرِ روم کو ہونے والے شکست نے دورِ صدیقِ اکبر کا فاتحانہ آغاز کیا۔ لشکر اسامہ   کی شام میں فتوحات کے پیچھے ابو بکر صدیق کی اطاعت رسول ﷺ، اعلٰی سیاست، فہم و فراست اور جنگی مہارت کا بہترین نمونہ تھا، اس فتح نے دشمنان اسلام کے دل بٹھا دیے ،   بعد ازاں ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جغرافیائی لحاظ سے اہم ترین صوبہ قیصرِ روم   سے اۤزاد کروا کر سلطنت اسلامیہ میں داخل کروانا ایک عظیم کارنامہ تھا۔ اسی فتح کی برکت سے مجاہدین اسلام کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور بعد ازاں ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں یہ لشکر کشی جاری رہے اور فتوحات کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ شاہِ کسرٰی کا اقتدار بھی دور صدیق اکبر میں ہی سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں زوال پزیر ہوا۔

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت صرف سوا دو برس ہے لیکن اللہ تعالٰی نے اس مختصر مدت میں انہیں بے شمار برکات سے نوازا تھا یہی وجہ ہے کہ   ان کی خلافت کا بیشتر حصہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے نمٹنے میں صرف کرنا پڑا ۔ لیکن اس کے باوجود وہ ملکی نظم و نسق سے غافل نہیں رہے فی الحقیقت انہوں نے اپنی قوت ایمانی ، تدبر و فراست اور عزم و ہمت کی بدولت نوزائیدہ خلافت اسلامیہ کو اتنی مستحکم بنیادوں پر قائم کر دیا ۔ جس پر ان کے اولوالعزم جانشین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک عظیم الشان تعمیر فرما دی۔

مسئلہ و عقیدہ ختم     ابتداء سے ہی اہم و حساس رہا ہے۔ پورے کا پورا دین اسلام اسی ستون پر کھڑا ہے اور یہی اللہ جل و علا کی منشاء و رضا ہے۔ صدیق اکبر اولین مجاہد ختم نبوت ہیں، آپ کے قول و فعل نے ختم نبوت کے عقیدے کو تقویت و تازگی بخشی۔

قبیلہ بنی حنیفہ کے افراد جب اسلام قبول کرنے کے لیے رسول کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو ان کے وفد میں ایک شخص مسیلمہ بن تمامہ بھی موجود تھا۔ اس نے کہا میں اس شرط پر اسلام لاؤں گا کہ محمد ﷺ اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ بنا دیں۔ رسول اللہ کے دست مبارک میں اس وقت کھجور کی ایک ٹہنی تھی۔ آپ نے فرمایا اگر تو اسلام کے عوض کجھور کی یہ ٹہنی بھی مجھ سے مانگے گا تو میں نہ دوں گا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تو وہی کاذب ہے جس کے متعلق مجھے خواب میں پہلے ہی خبر دی جا چکی ہے۔ اس جواب کے بعد مسیلمہ مایوس ہو کر واپس نجد میں اپنے علاقے یمامہ (موجودہ سعودی دار الحکومت ریاض کے قریب) لوٹا اور رسول اکرم ﷺ کی بیماری کی خبر سنی تو نبوت کا دعوی کر دیا اور کہا کہ میں نبوت میں محمد (ﷺ) کا شریک بنا دیا گیا ہوں۔ پھر اس نے حضور کی خدمت میں ایک خط بھیجا۔ خط کا مضمون یہ تھا:-

“مسیملہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام” “سلام علیک! میں نبوت میں آپ کے ساتھ شریک کر دیا گیا ہوں لہذا آدھی دنیا آپ کی ہے اور آدھی میری ، لیکن مجھے آپ سے انصاف کی امید نہیں۔” حضور نبی کریم نے اس خط کا یہ جواب دیا :-

محمد رسول اللہ کی طرف سے مسیلمہ کذاب کے نام؛

سلام علی من اتبع الھدی اما بعد “درحقیقت زمین خدا کی ہے اپنے بندوں میں سے وہ جسے چاہتا ہے زمین کا وارث بناتا ہے اور انجام کار کامیابی خدا سے ڈرنے والوں کی ہے۔” (الاعراف)

رسول اکرم ﷺ کے وصال فرمانے کے بعد جب مسیلمہ کذاب کا فتنہ بڑھنے لگے تو حضرت ابو بکر نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی خاطر عظیم کمانڈر اور بہادر صحابی رسول خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اس کذاب سے جنگ کرنے کے لیے روانہ کیا۔ اسلامی لشکر کی آمد کی خبر سن کر مسیلمہ اپنی عظیم الشان فوج کو جو چالیس ہزار جوانواں پر مشتمل تھی لے کر نکلا۔ دونوں فوجوں میں سخت ہولناک لڑائی ہوئی۔ شروع میں مسلمانوں پر شکست کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے اور مسیلمہ کے آدمی حضرت خالد کے خیمہ تک پہنچ گئے تھے۔ لیکن حضرت خالد نے سنبھل کر حملہ کیا اور دشمنوں کو دھکیلتے چلے گئے۔ حضرت خالد نے خود مسیلمہ کو مبازرت کے لیے پکارا۔ وہ آیا مگر مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے بھاگ کھڑا ہو جس سے اس کے لشکر میں بھی بھگدڑ مچ گئی اور بری طرح شکست کھائی۔ مسیلمہ اپنے کچھ آدمیوں کو لے کر اپنے ایک باغ میں جس کا نام اس نے “حدیقۃ الرحمٰن”  رکھا تھا چھپ گیا اور باغ کے دروازے بند کرا دیے۔ ایک بہادر انصاری حضرت براء بن مالک نے کہا مجھے باغ کے اندر پھینک دو۔ چنانچہ انہیں پھینک دیا گیا اور انہوں نے تن تنہا مسیلمہ کے پہرہ داروں کو قتل کر کے دروازہ کھول دیا۔ اب مسلمان اندر گھس گئے اور مسیلمہ کے ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا۔ خود مسیلمہ بھی خدا کی تلوار سے نہ بچ سکا۔ مسیلمہ کو قتل کرنے والوں میں سید الشہداء حمزہ بن عبد المطلب کے قاتل حضرت وحشی بھی شامل تھے گویا اس طرح انہوں نے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کر دیا۔ مسیلمہ کے قتل کے بعد اس کی قوم بنی حنیفہ نے مسلمانوں سے نرم شرائط پر صلح کر لی۔ صلح کی تکمیل ہو چکی تھی کہ حضرت ابو بکر کا حکم پہنچا کہ بنی حنیفہ کے تمام سپاہی قتل کر دیے جائیں لیکن چونکہ حضرت خالد ان سے عہد نامہ کر چکے تھے لہذا اسی پر قائم رہے۔ پھر بعد میں بنی حنیفہ کا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ یوں خلیفہ اول نے ختم نبوت کے مسئلہ کی اہمیت کو اجاگر فرمانے کے ساتھ ساتھ اس کے منکرین کے خلاف عملی اقدام سے بھی یہ ثابت کر دیا کہ؛

کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ جنگ یمامہ کے موقع پر حضرت ابو بکر صدیق نے میری جانب ایک قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ میرے پاس اس وقت عمر فاروق بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ جنگ کے دوران بے شمار حفاظ شہید ہو گئے ہیں اور اگر اس طرح جنگوں میں حفاظ کرام شہید ہوتے رہے تو قرآن مجید کے ایک بہت بڑے حصے کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے اس لیے ان کی رائے ہے کہ میں قرآن کریم کو جمع کروں۔ حضرت ابو بکر فرماتے ہیں کہ میں نے فرمایا کہ میں وہ کام نہیں کر سکتا جو نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں نہیں کیا۔ پھر اللہ عزوجل نے اس کار خیر کے لیے میرا سینہ کھول دیا اور میری رائے بھی سیدنا عمر فاروق والی بن گئی۔ تم نوجوان ہو اور حضور نبی کریم کے کاتب وحی بھی ہو اس لیے تم قرآن کریم جمع کرو۔ حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اگر مجھے پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیا جاتا تو میں اسے قرآن مجید جمع کرنے سے زیادہ آسان سمجھتا۔ سیدنا ابو بکر نے مجھ سے فرمایا کہ یہ کار خیر ہے اور اللہ عزوجل نے میری رائے بھی وہی کر دی جو عمر فاروق اور سیدنا ابو بکر کی تھی۔ میں نے کھجور کے پتوں ، کپڑے کے ٹکڑوں ، پتھر کے ٹکڑوں اور صحابہ کرام کے سینوں سے قرآن مجید کو اکٹھا کیا۔ سیدنا ابو بکر صدیق کے وصال تک یہ صحیفے ان کے پاس محفوظ رہے جو بعد ازاں سیدنا عمر فاروق کے سپرد ہوئے اور آپ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان غنی کے پاس پہنچے جنہوں نے اس کی نقلیں کروا کر مختلف علاقوں میں بھیجیں۔ حضرت زید کو قرآن مجید جمع کرنے کا حکم سیدنا ابو بکر نے اس لیے دیا کہ وہ کاتب وحی تھے اور حضور نبی کریم کی ہر وحی انہوں نے تحریر فرمائی تھی اس کے علاوہ وہ حافظ قرآن بھی تھے اور نبی کریم کو قرآن مجید سنایا کرتے تھے تا کہ اگر کوئی غلطی ہو تو حضور ان کی اصلاح فرما دیں۔ نبی کریم ﷺ کے وصال سے کچھ روز قبل ہی حضرت زید نے حضور کو سارا قرآن پاک سنایا تھا اور نبی کریم نے آپ کی تعریف فرمائی۔ قرآن مجید جمع کرانا حضرت ابو بکر صدیق کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے جس کی وجہ سے رہتی دنیا تک ہر مسلمان کو قرآن مجید پڑھنے میں آسانی ہو گئی۔ قرآن پاک کو پہلی مرتبہ کتابی شکل حضرت ابو بکر صدیق نے ہی دی تھی۔

اپنی رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *