خلاصہ بیان: علامہ افتخار الحسن رضوی
بتاریخ 28 مئی 2019 بمطابق 23 رمضان 1440 ھ، جامعہ خلیج، مملکتِ بحرین
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علٰی رسول اللہ، وعلٰی الہ وصحبہ اجمعین
زکوٰۃ اور صدقہ فطر سے متعلق مختصر معلومات مع شرعی اصطلاحات پیش نظر ہیں؛
زکوٰۃ کس پر فرض ہے یا مالک نصاب کون ہے؟
مالک ِ نصاب ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے سات تولے سونا ،یا ساڑھے باون تولے چاندی ،یا اتنی مالیت کی رقم ، یا اتنی مالیت کا مال ِ تجارت یا اتنی مالیت کا حاجاتِ اصلیہ (یعنی ضروریاتِ زندگی) سے زائد سامان ہو ۔
مصارفِ زکوٰۃ یعنی وہ لوگ جن کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے؛
قرآن ِ مقدس میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے؛
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیۡنِ وَ الْعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیۡنَ وَفِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِیۡلِ ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللہِ ؕ وَاللہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۶۰﴾ (التوبہ: 60)
ترجمہ: زکوٰۃ صرف فقیروں اور بالکل محتاجوں اور زکوٰۃ کی وصولی پر مقرر کئے ہوئے لوگوں (عملہ) اور ان کیلئے ہے جن کے دلوں میں اسلام کی الفت ڈالی جائے اور غلام آزاد کرانے میں اور قرضداروں کیلئے اور اللہ کے راستے میں (جانے والوں کے لئے) اور مسافر کے لئے ہے۔ یہ اللہ کامقرر کیا ہوا حکم ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔
اس آیت سے جن لوگوں کو زکوٰۃ دینے کا حکم ملتا ہے وہ مندرجہ ذیل سات اقسام ہیں۔
(1)فقیر(2)مِسکین (3)عامِل (4)رِقاب (5)غارِم (6)فِیْ سَبِیْلِ اللہ (۷)اِبن سبیل (یعنی مسافر)
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ، الباب السابع فی المصارف ،ج۱،ص۱۸۷)
اِن کی تفصیل
فقير: وہ ہے کہ(الف) جس کے پاس کچھ نہ کچھ ہو مگر اتنا نہ ہوکہ نِصاب کو پَہنچ جائے (ب)يانِصاب کی قَدَر توہو مگر اس کی حاجتِ اَصلِيہ (يعنی ضَرورياتِ زندَگی ) ميں مُسْتَغْرَق(گِھراہوا ) ہو ۔مَثَلاً رہنے کا مکان، خانہ داری کا سامان، سُواری کے جانور( یا اسکوٹر یا کار) کاریگروں کے اَوزار، پہننے کے کپڑے ،خِدمت کیلئے لونڈی ،غلام، عِلمی شُغْل رکھنے والے کے لیے اسلامی کتابيں جو اس کی ضَرورت سے زائد نہ ہوں (ج) اِسی طرح اگر مَديون ( مَقروض ) ہے اور دَین ( قَرضہ ) نکالنے کے بعد نِصاب باقی نہ رہے تو فقير ہے اگر چہِ اس کے پاس ايک تو کيا کئی نِصابيں ہوں ۔
(رَدُّالْمُحتَارج۳ص۳۳۳، بہارشريعت،ج۱،مسئلہ نمبر۲، حصہ ۵ ص۹۲۴ )
مِسکين: وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو یہاں تک کہ کھانے اور بدن چُھپانے کیلئے اِس کامُحتاج ہے کہ لوگوں سے سُوال کرے اور اسے سُوال حلال ہے۔ فقير کو ( يعنی جس کے پاس کم از کم ايک دن کا کھانے کیلئے اور پہننے کیلئے موجود ہے ) بِغير ضَرورت و مجبوری سُوال حرام ہے ۔
(الفتاوٰی الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ،الباب السابع فی المصارف ،ج۱،ص۱۸۷)
عامِل: وہ ہے جسے بادشاہِ اسلام نے زکوٰۃ اور عشر وصول کرنے کے لئے مقرر کیا ہو۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ،الباب السابع فی المصارف ،ج۱،ص۱۸۸)
رِقاب: سے مراد مکاتب ہے ۔ مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس سے اس کے آقا نے اس کی آزادی کے لئے کچھ قیمت ادا کرنا طے کی ہو ،فی زمانہ رقاب موجود نہیں ہیں۔
غارِم : اس سے مراد مقروض ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ دینے کے بعد زکوٰۃ کا نصاب باقی نہ رہے اگرچہ اس کا بھی دوسروں پر قرض باقی ہو مگر لینے پر قدرت نہ رکھتا ہو ۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الزکوٰۃ ،باب المصرف ،ج۳،ص۳۳۹)
فِی سَبِیلِ اللہ: یعنی راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں خرچ کرنا ۔اس کی چند صورتیں ہیں :
(۱) کوئی شخص محتاج ہے اور جہاد میں جانا چاہتا ہے مگر اس کے پاس سواری اور زادِ راہ نہیں ہیں تو اسے مالِ زکوٰۃ دے سکتے ہیں کہ یہ راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں دینا ہے اگرچہ وہ کمانے پر قادر ہو ۔
(۲) کوئی حج کے لئے جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس زادِ راہ نہیں ہے تو اسے بھی زکوٰۃ دے سکتے ہیں لیکن اسے حج کے لئے لوگوں سے سوال کرنا جائز نہیں ہے ۔
(۳) طالبِ علم کہ علمِ دین پڑھتا ہے یا پڑھنا چاہتا ہے اس کو بھی زکوٰۃ دے سکتے ہیں بلکہ طالب ِ علم سوال کر کے بھی مال ِ زکوٰۃ لے سکتا ہے جبکہ اُس نے اپنے آپ کو اسی کام کے لیے فارغ کر رکھا ہو ، اگرچہ وہ کمانے پر قدرت رکھتا ہو ۔
(۴) اسی طرح ہر نیک کام میں مالِ زکوٰۃ استعمال کرنا بھی فی سبیل اللہ یعنی راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں خرچ کرنا ہے ۔مال ِ زکوٰۃ میں دوسرے کو مالک بنادینا ضروری ہے بغیر مالک کئے زکوٰۃ ادا نہیں ہوسکتی ۔
(الدرالمختار و رد المحتار،کتاب الزکوٰۃ ، باب المصرف ،ج۳،ص۳۳۵،۳۴۰،بہارِشریعت،ج۱،مسئلہ نمبر۱۴،حصہ ۵،ص۹۲۶،ملخصاً)
ابن سبیل :یعنی وہ مسافر جس کے پاس سفر کی حالت میں مال نہ رہا، یہ زکوٰۃ لے سکتا ہے اگرچہ اس کے گھر میں مال موجود ہو مگر اسی قدر لے کہ اس کی ضرورت پوری ہوجائے ، زیادہ کی اجازت نہیں اور اگر اسے قرض مل سکتا ہو تو بہتر ہے کہ قرض لے لے۔
(الفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الزکوٰۃ، الباب السابع فی المصارف، ج۱،ص۱۸۸)
نوٹ: معروف حنفی فقیہ مفتی محمد امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ”جن لوگوں کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ انہیں زکوٰۃ دے سکتے ہیں ان سب کا فقیر ہونا شرط ہے سوائے عامل کے کہ اس کے لئے فقیر ہونا شرط نہیں اور ابن سبیل (یعنی مسافر) اگرچہ غنی ہو اس وقت فقیر کے حکم میں ہے ،باقی کسی کو جو فقیر نہ ہو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ۔”
(بہارِ شریعت ،ج۱،مسئلہ نمبر۴۴ حصہ۵، ص۹۳۲)
مستحقِ زکوٰۃ کو کیسے پہچانیں؟
جسے ہم زکوٰۃ دینا چاہ رہے ہیں وہ مستحقِ زکوٰۃ ہے یا نہیں ؟ظاہر ہے کہ اس کی مکمل تحقیق بہت دشوار ہے اس لئے جس کو دینا ہو اس کے متعلق اگر غالِب گمان ہو کہ یہ مستحق ِ زکوٰۃ ہے(یعنی ادائیگی کی شرائط پر پورااترتا ہے) تو دے دے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور اگر گمان غالب نہ ہوتا ہو تو نہ دے ۔
(فتاوٰی امجدیہ، ج ۱،ص۳۷۴)
صدقہ فطر
عبداﷲ بن عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ عليہ وسلم نے مسلمانوں پر صدقہ فطرمقرر کیا۔
(صحيح البخاري،،کتاب الزکوٰۃ، باب فرض صدقۃ الفطر، الحديث: ۱۵۰۳،ج۱، ص۵۰۷. ملخصا)
صدقہ فطر دینا واجب ہے۔
(الدرالمختار،کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۲)
صدقہ فطر کس پر واجب ہے؟
صدقہ فطر ہر اس آزاد مسلمان پر واجب ہے جو مالک ِ نصاب ہو اور اس کانصاب حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو ۔
(ما خوذ ازالدر المختار،کتاب الزکوٰۃ،باب صدقۃ الفطر،ج۳،ص۳۶۵)
مالِکِ نِصاب مَرد اپنی طرف سے ،اپنے چھوٹے بچّوں کی طرف سے اور اگر کوئی مَجْنُون (یعنی پاگل )اولاد ہے(چاہے پھر وہ پاگل اولاد بالِغ ہی کیوں نہ ہو)تو اُس کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرے۔ہاں! اگر وہ بچّہ یامَجْنُون خود صاحِبِ نِصاب ہے تو پھراُ س کے مال میں سے فِطْرہ اداکردے۔
(الفتاوی الھنديۃ، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۲)
حاجتِ اَصلیہ کسے کہتے ہیں؟
حاجتِ اصلیہ (یعنی ضروریاتِ زندگی) سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی عموماً انسان کو ضرورت ہوتی ہے اور ان کے بغیر گزراوقات میں شدید تنگی ودشواری محسوس ہوتی ہے جیسے رہنے کا گھر ، پہننے کے کپڑے، سواری ، علمِ دین سے متعلق کتابیں، اور پیشے سے متعلق اوزار وغیرہ۔
(الھدایۃ،کتاب الزکوٰۃ،ج۱،ص۹۶)
اپنی رائے دیں