شوال کے چھ روزوں کا حکم

شوال کے چھ روزوں کا حکم


سوال: شوال کے چھے روزوں کے بارے رہنمائی فرمائیں۔

جواب: ماہِ رمضان المبارک اور عید الفطر گزر جانے کے بعد شوال کے مہینے میں رکھے جانے والے چھے روزوں کے فضائل احادیث میں موجود ہیں۔ یہ اللہ تعالٰی کا خاص کرم ہے کہ وہ اپنے حبیب کریم ﷺ کے امتیوں کو بار بار حصول مغفرت و رحمت کے مواقع عطا فرماتا ہے، بظاہر چھوٹے چھوٹے اعمال پر عظیم اجر عطا فرماتا ہے اور ان اعمالِ صالحہ کی برکت سے دنیا میں موجود نحوستوں، بلاؤں ، بیماریوں، مسائل اور مشکلات سے محفوظ رکھتا ہے۔

سیِّدُناابوایوب انصاری رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مصطفٰی جانِ رحمت ﷺنے ارشاد فرمایا:

”جس نے رمضان کے روزے رکھے اورپھر شوال کے چھ روزے رکھے گویا اس نے سارا زمانہ روزے رکھے۔”

(السنن الکبری للنسائی،کتاب الصیام، با ب ذکر اختلاف ۔۔۔الخ، الحدیث ۲۸۶۲۔ ۶۳،ج۲،ص۱۶۳)

سیدنا علی المرتضٰی، انس بن مالک، عبد اللہ بن عمر سمیت دیگر اکابرین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے شوال کے روزوں کے فضائل مروی ہیں۔

عید الفطر کا دن گزار کر شوال کے مہینہ کے آخر تک مسلسل یا کچھ دن چھوڑ کر ، جیسے آسانی ہو چھے روزے رکھ سکتے ہیں۔ اس میں ہرگز کوئی پابندی نہیں کہ آپ مسلسل چھے روزے رکھیں گے تو ہی اجر پائیں گے ، کیونکہ حدیث شریف میں ایسی کوئی پابندی بیان نہیں ہوئی ہے۔

یہ بھی پیش نظر ہے کہ جن خواتین کے فرض روزے حیض یا نفاس کی وجہ سے چھوٹ گئے ہوں یا جن حضرات کے فرض روزے کسی وجہ سے چھوٹ چکے ہوں وہ پہلے فرض روزے مکمل کرنے کی نیت کریں اور اللہ کی رحمت پر امید رکھیں کہ انہیں فرض روزوں کے ساتھ ساتھ شوال کے نفلی روزوں کا اجر بھی عطا ہو گا۔

اگر کوئی مسلمان شوال کے نفلی روزے نہ رکھے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنایا جائے، نہ ہی اس کی تذلیل یا بے حرمتی کی جائے۔ عبادات میں تطوع یا اضافہ کا اختیار ہر مسلمان کے پاس ہے، اگر کوئی اضافی نفلی عبادت کر لے تو یہ اس کے لیے بہت اچھا ہے ، نہ کرنے کی صورت میں اللہ تعالٰی یا رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کوئی ناراضی نہیں ہے۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

کتبہ: علامہ افتخار الحسن رضوی

اپنی رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *