از: افتخار الحسن رضوی
ایک سابقہ گورنر پنجاب کے قتل سے غازی صاحب کی پھانسی تک کے دورانیے میں مختلف آراء دیکھنے سننے میں آتی رہیں۔ سنی مذہبی حلقے کی بھرپور اٹھان خوشگوار تھی لیکن ملک دشمن طاقتوں کی دیدہ و نادیدہ حمایت بھی زیر بحث رہی۔ اسی دوران راقم نے متعدد بار توجہ دلائی کہ اس تحریک کا انجام وزیرستان کی تحریک نفاذ شریعت محمدیہ والا ہو گا۔ اس پیشگوئی پر حسبِ روایت و عادت مغلظات اور تحقیری جملے سننے پڑتے تھے۔ سال ۲۰۱۸ میں ایک سفارتی حلقے اور داخلہ و خارجہ کے ماہرین کے ساتھ بیٹھک کے بعد میں نے کہا تھا یہ تنظیم و تحریک کچلنے کی بھرپور کوششیں کی جائیں گی اور کم از کم موجودہ قیادت گم کر دی جائے گی۔ اللہ تعالٰی کی رضا کے بابا جی علیہ الرحمہ کا وصال ہو گیا، جانشین جیل میں اور آج (دمِ تحریر) دوسرے جانشین پر بھی مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں اسی تحریک کے دوسرے دھڑے کے سربراہ ڈاکٹر صاحب اور بابا جی علیہ الرحمہ سے میری متعدد بار بات چیت ہوئی۔ ہر بار ایک ہی گزارش کی، حضور والا میڈیا پر وہ نمائندہ لائیں جس کو صحافتی انداز بیان، ملکی و غیر ملکی سیاست اور معیشت سے متعلق بھرپور معلومات حاصل ہوں۔ یہ ضروری نہیں کہ میڈیا پر آپ کا نمائندہ متقی پرہیز گار، ولی کامل اور عالم با عمل ہو، بلکہ وہ communication کا ماہر ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ مذہبی علوم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ انداز میں بیان کرنے کا ڈھنگ جانتا ہو۔ لیکن ہر بار جواب یہی آتا تھا کہ سیدنا عمر بن عبد العزیز نے صحافت و سیاست نہیں پڑھی تھی، بلکہ وہ ایمانی طاقت سے غالب آئے تھے اور ہم بھی اسی طاقت سے آنے والے ہیں۔ ایسے ہی جوشیلے بیانات جلسوں میں سنائے گئے۔ اس فکر کے حمایتی افراد جن کی نیت پر مجھے کوئی شک نہیں، انہوں نے سوشل میڈیا پر جذبات کی خرید و فروخت کی۔ کئی لکھاری ایسے ہیں جنہوں نے ان جذبات کو مزید عام کیا اور تحریک پر ہونے والے تنقید کو اسلام دشمنی سے تعبیر کیا۔
اس فکر کا انجام یہ ہے کہ پچاس لاکھ ووٹ لینے کے باوجود تحریک کے ٹکٹ پر ایک بھی نمائندہ قومی اسمبلی میں نہ پہن سکا، پوری انتخابی مہم میں کسی ایک مین سٹریم میڈیا چینل نے تحریکی نمائندگان کو اپنے ٹاک شوز میں مدعو نہیں کیا۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلامی اور علاقائی لسانی جماعتیں اپنی تمام تر زہر افشانی و ملک و اسلام دشمنی کے باوجود قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں اپنی نشستیں محفوظ کرنے میں کامیاب رہیں۔
اب تصویر کا رخ پلٹ کر دیکھتے ہیں۔ ۱۹۹۰ کے طالبان اور موجودہ طالبان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج سے تیس سال پہلے کے طالبان دنیا سے کٹے ہوئے تھے، ہر معاملہ تلوار کے زور پر ہوتا تھا۔ جبراً عمل کروایا جاتا ہے، تشدد ہی تشدد تھا جب کہ موجودہ طالبان زور بازو کے ساتھ ساتھ مذاکرات Communication & Negotiation کے ساتھ اوپر آئے ہیں۔ تیس سالے پرانے طالبان فقط داخلی طاقت تھے، دنیا سے جدا اور علاقائی پہچان رکھتے تھے۔ جب کہ ۲۰۲۱ کے طالبان کے ساتھ امریکہ، برطانیہ، ترکی، چائنہ، وسطی ایشیائی ریاستیں، روس، عرب ممالک اور اقوامِ متحدہ تک مذاکرات میں شریک ہے۔ ان کو مکمل سفارتی پروٹوکول، چارٹرڈ طیارے اور پانچ ستارہ ہوٹلز میں مرحبا کہا جا رہا ہے۔ موجودہ طالبان کے ترجمان کو پشتو کے علاوہ انگریزی، فارسی اور عربی پر عبور حاصل ہے۔ ان کی قیادت سوشل میڈیا استعمال کرتی ہے اور وہ سفارتی آداب اور حدود میں ر ہ کر اپنے معتدل ہونے کا ثبوت کامیابی سے دیتے آ رہے ہیں۔ دنیا کی ہر بڑ ی سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ وہ مسلسل رابطے میں ہیں اور تاحال وہ دنیا کو یقین دلا رہے ہیں کہ شریعت مسلط نہیں کی جائے گی بلکہ اس کا مناسب انداز میں نفاذ ہو گا۔ اس کی تازہ ترین مثال خواتین کو مناسب ماحول میں کام کی اجازت دینا، کابل میں موجودہ سفارت خانوں، سیاسی نمائندوں اور سرکاری حکام کو یرغمال نہ بنانا ہے۔ ہر کسی کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا گیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاحال افغانستان سے کسی خونریزی یا کسی سیاسی و عسکری قتل کی اطلاع نہیں ملی۔ اِکا دُکا ہونے والے واقعات کی آفیشل تردید بھی آ چکی ہے۔
پاکستان کی حالیہ مذہبی تحریک میں اٹھان اور انتخابات میں اس کی ناکامی کے ساتھ ساتھ افغان سیاسی عمل پر اندر کی خبر رکھنے والے ایک سیانے نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بلاد عرب سمیت مغربی ممالک طالبان کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قطر میں قائم طالبان کے سفارتی دفتر میں کام کرنے والوں کو resideنcy permits بھی دیے گئے اور تمام اقامتی حقوق سے بھی نوازا گیا ہے۔
اب ہمارے پاکستانی مذہبی خصوصا بریلوی بھائی اس صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی قیادت پر زور دیں کہ صرف نعرے، جلوس اور یلغار سے کام پہلے بنا ہے نہ اب بنے گا۔ حکمت، تدبر اور طویل مدتی پالیسی بنائیں جس میں حتمی طور پر ملک و ملت کی بہتری کی منصوبہ سازی اس انداز میں ہو کہ آپ دنیا سے کٹ کر نہیں بلکہ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی لائیں۔ پاکستانی سرکاری اداروں، عسکری اداروں، میڈیا گروپس، عدلیہ ، غیر ملکی سیاسی اکابرین اور سفارتی حلقوں سے اپنے تعلقات مضبوط کریں۔ شور کی بجائے اپنے کام کو documented حالت میں دنیا ک ساتھ پیش کریں۔ اپنی صفوں میں صحافی پیدا کریں، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین پیدا کریں اور بات چیت کا انداز تبدیل کریں۔ کاش یہ طبقہ اپنی طاقت کا درست استعمال کرے ورنہ خون اور پیسہ دونوں کے ضیاع کا یہ عمل جاری رہے گا۔
۸ محرم الحرام ۱۴۴۳، ۱۶ اگست ۲۰۲۱