فضائل حسنین بزبان شاہ کونین ﷺ

فضائل حسنین بزبان شاہ کونین ﷺ


(علامہ افتخار الحسن رضوی)

اہل بیت اطہار کے فضائل و مناقب پر کثیر احادیث موجود ہیں۔ آج جب یزیدی فکر و سوچ اہل بیت اطہار کی عظمت کے انکار کے ساتھ ساتھ یزید کو سچا ثابت کرنے اور اسے صحابی رسول کے منصب پر بٹھانے کے لیے مصروف عمل ہے تو ایسے میں ضروری ہے کہ ہم آل رسول کی عظمت کو مزید کھل کر بیان کریں۔ زیر نظر مضمون میں آپ اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت و فضیلت، نبی کریم ﷺ کی ان سے محبت بارے احادیث کی روشنی میں کچھ جان سکیں گے۔

حضرت فاطمہ کی سیدنا علی رضی اللہ عنہم سے شادی

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالی نے مجھے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے کا حکم دیا۔

(المعجم الکبير للطبراني، 10 : 156، ح : 10305)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صلب سے نبی کی ذریت

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر نبی کی ذریت اس کی صلب سے جاری فرمائی اور میری ذریت حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی صلب سے چلے گی۔

(المعجم الکبير لطبراني، 3 : 44، ح : 2630: مجمع الزوائد، 9 : 172: کنز العمال’ 11 : 400، ح : 32892)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کے قائم مقام

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں اپنا خلیفہ بنایا تو انہوں نے عرض کیا؛ یا رسول اللہ ﷺ، آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں خلیفہ بنایا ہے۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ آپ اس چیز پر راضی نہیں کہ آپ میرے لئے اس طرح بن جائیں جس طرح کہ ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قائم مقام تھے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔

صحيح مسلم، 4 : 1870- 1871، کتاب فضائل الصحابه، ح : 2404
صحيح البخاري، 3 : 1358، کتاب المناقب باب 9 فضل الصحابه، ح : 3503
سنن الترمذي، 5 : 640 – 641، کتاب المناقب، ح : 3724، 3730، 3731

اہل تشیع فرقہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کئی مقامات پر نبی کریم ﷺ سے برتر کہہ دیتے ہیں، معاذ اللہ، اور بعض شیعہ جوشیلے خطیب تو علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کو منصب خدائی تک پہنچاتے ہیں، لیکن اللہ کے حبیب، نبی غیب دان ﷺ نے اسی حدیث میں فرما دیا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔

منافق کی نشانی

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ چیرا اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق مجھ سے بغض رکھے گا۔

) صحيح مسلم، 1: 60(

حسن اور حسین جنتی نام

’’عمران بن سليمان سے روایت ہے کہ حسن اور حسین اہل جنت کے ناموں میں سے دو نام ہیں جو کہ دورِ جاہلیت میں پہلے کبھی نہیں رکھے گئے تھے۔ ‘‘

الذرية الطاهره، 1 : 68، رقم : 99

الصواعق المحرقه : 192

اسد الغابه في معرفة الصحابه، 2 : 25

فيض القدير، 1 : 105

نبی کریم ﷺ کے بیٹے

حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن و حسین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یہ میرے بیٹے ہیں۔‘‘

ديلمي، الفردوس، 4 : 336، رقم : 6973
ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 763

کریم نانا ﷺ نواسوں کے لیے فکر مند

’’سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور فرمایا : میرے بیٹے کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا : علی رضی اللہ عنہ ان کو ساتھ لے گئے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تلاش میں متوجہ ہوئے تو انہیں پانی پینے کی جگہ پر کھیلتے ہوئے پایا اور ان کے سامنے کچھ کھجوریں بچی ہوئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! خیال رکھنا میرے بیٹوں کو گرمی شروع ہونے سے پہلے واپس لے آنا۔‘‘

  1. حاکم، المستدرک، 3 : 180، رقم : 4774
    2. دولابي، الذرية الطاهره، 1 : 104، رقم : 193

پنجتن پاک

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان’’اے نبی کے گھر والو! اﷲ چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں : یہ آیت مبارکہ ان پانچ ہستیوں کے بارے میں نازل ہوئی : حضور نبی اکرم، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم الصلوۃ والسلام۔‘‘

) طبراني، المعجم الاوسط، 3: 80، رقم: 3456 | ابن حيان، طبقات المحدثين، 3: 384 | خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 10 : 278(

مذکورہ بالا روایت ٌپنج تن پاکٌ پر دلالت کرتی ہے، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ دیگر اصحاب رسول کی عظمت کا انکار کیا جائے کیونکہ خلفائے ثلاثہ سمیت دیگر اصحاب کی عظمت، فضائل اور مناقب میں رسول اللہ ﷺ کے کثیر فرامین کتب احادیث میں موجود ہیں۔

سب سے بہتر نسب والے شہزادے

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جو (اپنے) نانا نانی کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے نہ بتاؤں جو (اپنے) چچا اور پھوپھی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو (اپنے) ماموں اور خالہ کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جو (اپنے) ماں باپ کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ وہ حسن اور حسین ہیں، ان کے نانا اﷲ کے رسول، ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد، ان کی والدہ فاطمہ بنت رسول اﷲ، ان کے والد علی بن ابی طالب، ان کے چچا جعفر بن ابی طالب، ان کی پھوپھی ام ہانی بنت ابی طالب، ان کے ماموں قاسم بن رسول اﷲ اور ان کی خالہ رسول اﷲ کی بیٹیاں زینب، رقیہ اور ام کلثوم ہیں۔ ان کے نانا، والد، والدہ، چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ (سب) جنت میں ہوں گے اور وہ دونوں (حسنین کریمین) بھی جنت میں ہوں گے۔‘‘
)طبراني، المعجم الکبير، 3 : 66، رقم : 2682 | طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 298، رقم : 6462 | ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 229(

نبی کریم ﷺ کے ہم شکل

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حسن سینہ سے سر تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہ تھے اور حسین سینہ سے نیچے تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہ تھے۔ ‘‘

) ترمذي، الجامع الصحيح، 5: 660، ابواب المناقب، رقم: 5779 | احمد بن حنبل، المسند، 1: 99، رقم: 774(

نانا کی نواسوں سے محبت

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو (دیکھا کہ) حسن اور حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر کھیل رہے تھے، تو میں نے عرض کی : یا رسول اﷲ! کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ان سے محبت کیوں نہ کروں حالانکہ وہ دونوں میرے پھول ہیں۔‘‘

) بزار، المسند، 3: 287، رقم: 1079 | هيثمي، مجمع الزوائد، 9: 181|شوکاني، درالسحابه: 307(

’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا کر رہے تھے تو حسن و حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے۔ لوگوں نے ان کو منع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو چھوڑ دو، ان پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔‘‘

) طبراني، المعجم الکبير، 3: 47، رقم: 2644 | ابن حبان، الصحيح، 15: 426، رقم: 6970(

حسنین کریمین قیامت میں اپنے نانا کے ساتھ

’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اپنے بستر پر سویا ہوا تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے حسن یا حسین علیہما السلام (میں سے کسی ایک) نے پانی مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری بکری کے پاس آئے جو بہت کم دودھ والی تھی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا دودھ نکالا تو اس نے بہت زیادہ دودھ دیا، پس حسنں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے فرمایا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لگتا ہے یہ آپ کو ان دونوں میں زیادہ پیارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ اس نے پہلے پانی مانگا تھا پھر فرمایا : میں، آپ، یہ دونوں اور یہ سونے والا (حضرت علی رضی اللہ عنہ کیونکہ وہ ابھی سو کر اٹھے ہی تھے) قیامت کے دن ایک ہی جگہ پر ہوں گے۔‘‘

  1. احمد بن حنبل، المسند، 1: 101، رقم: 792
    2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 228
    3. شيباني، السنة، 2 : 598، رقم : 1322
    4. بزار، المسند، 3 : 30، رقم : 779

نانا کا نواسوں کو دم کرنا

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن و حسین علیہما السلام کے لئے (خصوصی طور پر) کلمات تعوذ کے ساتھ دم فرماتے تھے اور ارشاد فرماتے کہ تمہارے جد امجد (ابراہیم علیہ السلام بھی) اپنے دونوں صاحبزادوں اسماعیل و اسحاق (علیھما السلام) کے لئے ان کلمات کے ساتھ تعوذ کرتے تھے ’’میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات کے ذریعے ہر (وسوسہ اندازی کرنے والے) شیطان اور بلا سے اور ہر نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 3 : 1233، کتاب الانبياء، رقم : 3191
    2. ابن ماجه، السنن، 2 : 1164، کتاب الطب، رقم : 3525

نانا کی نواسوں سے   محبت کا انداز

’’حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حسنین کریمین علیہما السلام تھے ایک (شہزادہ) ایک کندھے پر سوار تھا اور دوسرا دوسرے کندھے پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کو باری باری چوم رہے تھے۔‘‘

  1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 400، رقم : 9671
    2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 777، رقم : 1376
    3. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4777

اپنی رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *