قبر پر اگر بتی یا شمع جلانا کیسا عمل ہے؟

قبر پر اگر بتی یا شمع جلانا کیسا عمل ہے؟


سوال: کیا قبر اگر بتی جلانا جائز ہے؟

جواب:     شب براءت کے موقع پر لوگ قبرستان میں حاضری دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک جائز عمل ہے لیکن اس موقع پر کئی خرافات دیکھنے میں آتی ہیں، جیسے قبور پر پانی بہانا، دانہ ڈالنا اور موم بتی، اگر بتی یا شمعیں جلانا۔ یاد رہے ، قبر پر کسی قسم کی شمع جلانا جائز نہیں۔ یہ نصرانیوں کا طریقہ ہے کہ مرنے والے کی یاد میں شمعیں جلاتے ہیں۔ اہل سنت کے مخالفین اس کا غلط استعمال کرتے اور منفی پیغام پھیلاتے ہیں کہ سنی عوام قبور پر شمعیں جلاتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سنی علما اس کی اجازت نہیں دیتے، عوام اپنے جہل کی وجہ سے ایسا کریں تو اس سے علم کا کیا تعلق؟

معروف صحابی سیدنا عَمْرْوبِن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ، انھوں نے دمِ مرگ (یعنی بوقت ِوفا ت ) اپنے فرزند سے فرمایا: ’’جب میں مرجاؤں تو میرے ساتھ نہ کوئی نَوحہ کرنے والی جائے نہ آگ جائے‘۔

(صحیح مُسلِم ص۷۵ حدیث ۱۹۲)

امام اہل سنت الشاہ احمد رضا خان علیہ الرحمہ قبور پر شمع جلانے سے متعلق فرماتے ہیں؛

قَبْر کے اوپر’’ اگر بتّی‘‘ نہ جلائی جائے اِس میں سُوئے ادب( یعنی بے اَدَبی) اور بد فالی ہے ( اور اس سے میِّت کو تکلیف ہوتی ہے) ہاں اگر(حاضِرین کو) خوشبو(پہنچانے)کے لیے(لگانا چاہیں تو) قَبْر کے پاس خالی جگہ ہو وہاں لگائیں کہ خوشبو پہنچانا مَحبوب (یعنی پسندیدہ) ہے ۔

(مُلَخَّصاً فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۹ص ۴۸۲،۵۲۵)

مزید ایک مقام پر فرماتے ہیں؛

اگر بتی قبر کے اوپر رکھ کر نہ جلائی جائے کہ اس میں سوءِ ادب اور بدفالی ہے۔ عٰلمگیری میں ہے: ان سقف القبرحق المیّت (قبرکی چھت حقِ میّت ہے) ہاں قریب قبر زمین خالی پر رکھ کر سلگائیں کہ خوشبومحبوب ہے ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

( فتاوٰی رضویہ، جلد ۹، کتاب الجنائز،   ص ۱۲۱ بحوالہ فتاوٰی ہندیۃ   الباب السادس عشر فی زیارۃ القبور الخ   نورانی کتب خانہ پشاور   ۵/ ۳۵۱)

لہٰذا یہ واضح ہوا کہ ایسا کہنا یا ماننا کہ اہل سنت قبور پر اگر بتی یا شمع جلانے کی اجازت دیتے ہیں۔ بلکہ حق یہ ہے کہ امام اہل سنت الشاہ احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے ایسی بدعات اور خلاف سنت حرکات کی مذمت و تردید فرمائی ہے۔

کتبہ: علامہ افتخار الحسن رضوی

اپنی رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *