مرد و خواتین کی نماز میں فرق

مرد و خواتین کی نماز میں فرق


سوال:      مرد و خواتین کی نماز میں فرق بیان کر دیں۔

جواب:     مرد و خواتین کی نماز میں فرائض اور واجبات ایک جیسے ہی ہیں، تکبیرات، تسبیحات اور قرآت بھی ایک جیسی ہی ہے۔ ہاتھ اٹھانے، قیام، رکوع و سجود و قعدہ کی حالت میں بعض اہم اور مختلف أمور حسبِ ذیل ہیں۔

سیدنا أبو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے؛

’’عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، صَاحِبِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ الْأَوَّلُ، وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ الصَّفُّ الْآخِرُ، وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَتَجَافَوْا فِي سُجُودِهِمْ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ يَنْخَفِضْنَ فِي سُجُودِهِنَّ، وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَفْرِشُوا الْيُسْرَى، وَيَنْصِبُوا الْيُمْنَى فِي التَّشَهُّدِ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ أَنْ يَتَرَبَّعْنَ وَقَالَ:يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ! لَا تَرْفَعْنَ أَبْصَارَكُنَّ فِي صَلَاتِكُنَّ تَنْظُرْنَ إِلَى عَوْرَاتِ الرِّجَال۔

(سنن کبریٰ بیہقی:3198)
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ آپﷺنے اِرشاد فرمایا: مردوں کی سب سے بہترین صف پہلی اور عورتوں کی سب سے بہترین آخری ہے، آپﷺمردوں کوکھل کر سجدہ کرنے کا حکم دیتے تھے اور عورتوں کو اس بات کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ سمٹ کر سجدہ کریں، اور آپﷺمردوں کو اِس بات کا حکم دیاکرتے تھےکہ وہ تشہد کی حالت میں اپنے بائیں پاؤں کو بچھاکر دایاں پاؤں کھڑا کریں، اور عورتوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ سمٹ کر(یعنی تورّک کےساتھ زمین پر سرین رکھ کر)بیٹھیں، اور فرماتے : اے عورتوں کی جماعت! تم لوگ نماز میں اپنی آنکھوں کو مت اٹھایا  کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری نگاہ مردوں کے ستر پر پڑجائے۔

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں؛
’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْمَرْأَةِ؟ فَقَالَ: «تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِرُ۔

(مصنّف ابن ابی شیبہ:2778)

ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا ، تو آپ نے ارشاد فرمایا: ” تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِرُ “ خوب اچھی طرح اکٹھے ہوکر اور سمٹ کر نما زپڑھے۔

سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کا فرمان؛

عن علی رضی الله عنه قال اذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتضم فخذيها.

(ابن ابي شيبه، المصنف، 1 : 241، الرقم : 2777)

’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ کر کرے اور اپنی ران (پیٹ اور پنڈلیوں) سے ملائے رکھے۔‘‘

امام عبد الرزاق علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں؛
’’عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: تَجْتَمِعُ الْمَرْأَةُ إِذَا رَكَعَتْ تَرْفَعُ يَدَيْهَا إِلَى بَطْنِهَا، وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ، فَإِذَا سَجَدَتْ فَلْتَضُمَّ يَدَيْهَا إِلَيْهَا، وَتَضُمَّ بَطْنَهَا وَصَدْرَهَا إِلَى فَخِذَيْهَا، وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ

(عبد الرزاق:5069 )
ترجمہ:حضرت ابن جریج حضرت عطاء سے نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اِرشاد فرمایا: عورت رکوع کرتے ہوئے سمٹ کر رکوع کرے گی۔ چنانچہ اپنے ہاتھوں کواُٹھاکر اپنے پیٹ کے ساتھ ملالے گی، اور جتنا ہوسکے سمٹ کررکوع کرے گی، پھر جب سجدہ کرے تو اپنے ہاتھوں کو اپنے (جسم کے)ساتھ ملالے گی، اور اپنے پیٹ اور سینہ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملالے گی اور اور جتنا ہوسکے سمٹ کر سجدہ کرے گی۔

عن إبراهيم قال إذا سجدت المرأة فلتلزق بطنها بفخذيها ولا ترفع عجيزتها ولا تجا فی کما يجافی الرجل.

(ابن ابی شيبه، المصنف،1 : 242، الرقم : 2782)

’’جب عورت سجدہ کرے تو پیٹ اپنے زانوؤں سے ملائے اور اپنی پیٹھ (سرین) مرد کی طرح بلند نہ کرے۔‘‘

مذکورہ بالا روایات سے یہ معلوم ہوا کہ نماز کی حالت میں بھی عورت کے پردے کا خیال رکھا جائے گا اور زیادہ سے زیادہ سمٹ کر نماز ادا کرے گی، کیونکہ احادیث میں مذکور بار بار ” وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ “ کے الفاظ اِسی ضابطہ کو بیان کررہے ہیں ۔ ایسی ہی روایات کی مزید توضیح و تشریح بیان کرتے ہوئے فقہائے اسلام نے فرمایا ہے؛

المرأة ترفع يديها حذاء منکبيها، وهو الصحيح لأنه أسترلها.

(ابن همام، فتح القدير، 1 : 246)

’’تکبیر تحریمہ کے وقت، عورت کندھوں کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے یہ صحیح تر ہے کیونکہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔‘‘

فإن کانت إمرأة جلست علی إليتهاالأيسری و أخرجت رجليها من الجانب الأيمن لأنه أسترلها.

(ابن همام، فتح القدير، 1 : 274)

’’اگر عورت نماز ادا کر رہی ہے تو اپنے بائیں سرین پر بیٹھے اور دونوں پاؤں دائیں طرف باہر نکالے کہ اس میں اس کا ستر زیادہ ہے۔‘‘

والمرأة تنخفض فی سجودها و تلزق بطنها بفخذ يها لأن ذلک أسترلها.

(مرغينانی، هدايه،1 : 50)

’’عورت اپنے سجدے میں بازو بند رکھے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملا دے کیونکہ یہ صورت اس کے لئے زیادہ پردہ والی ہے۔‘‘

علامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

فأما المرأة فينبغی أن تفترش زرا عيها و تنخفض ولا تنتصب کإنتصاب الرجل و تلزق بطنها بفخذيها لأن ذلک أسترلها.

(الکاسانی، بدائع الصنائع، 1 : 210)

’’عورت کو چاہیے اپنے بازو بچھا دے اور سکڑ جائے اور مردوں کی طرح کھل کر نہ رہے اور اپنا پیٹ اپنے رانوں سے چمٹائے رکھے کہ یہ اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے۔‘‘

امام ابنِ عابدین شامی علیہ الرحمہ عورت و مرد کی نماز کے مسائل میں موجود اختلافی حالات کا خلاصہ یوں بیان فرماتے ہیں؛

انها تخالف الرجل فی مسائل کثيرة.

’’عورت کئ مسائل میں مرد کے خلاف ہے۔‘‘

عورت تکبیر تحریمہ کے وقت کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھائے گی۔

آستینوں سے باہر ہاتھ نہیں نکالے گی۔

سینے کے نیچے ہاتھ پہ ہاتھ باندھے گی۔

رکوع میں مرد کی نسبت کم جھکے گی۔

انگلیوں کو گرہ نہیں دے گی نہ انگلیاں زیادہ پھیلائے گی بلکہ ملا کر رکھے گی۔

ہاتھ گھٹنوں کے اوپر رکھے گی۔

گھٹنوں میں خم نہیں کرے گی۔

رکوع و سجود میں گھٹنوں کو ملائے گی۔

سجدے میں بازو زمین پر پھیلائے گی۔

التحیات کے وقت دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر بیٹھے گی۔

مرد کی امامت نہیں کر سکتی۔

نماز میں کوئی بات ہو جائے تو امام کو بتانے کے لئے تالی بجائے گی۔ سبحان اللہ نہیں کہے گی۔

بیٹھتے وقت ہاتھوں کی انگلیوں کے سرے گھٹنوں سے ملائے گی / انگلیاں ملائے گی۔

عورتوں کی جماعت مکروہ ہے مگر پڑھیں تو ان کی امام درمیان میں کھڑی ہو گی آگے نہیں۔

عورت کا جماعت میں حاضر ہونا مکروہ ہے (ہم اس سے متفق نہیں)

مردوں کے ہمراہ باجماعت نماز ادا کریں تو مردوں سے پیچھے کھڑی ہوں۔

عورت پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ادا کرے گی تو ادا ہو جائے گی۔

عورت پر نماز عید واجب نہیں پڑھے گی تو ہو جائے گی۔

عورت پر تکبیرات تشریق نہیں۔

صبح کی نماز روشن کر کے پڑھنا عورت کے لئے مستحب نہیں۔

جہری نمازوں میں جہری قراءت نہیں کریں گی۔

عورت نماز میں سجدہ وقعدہ میں پاؤں کی انگلیاں کھڑی نہ کرے۔ یہ تمام تفصیل نماز کے حوالہ سے ہے ورنہ عورت اور مرد میں دیگر احکام میں بہت اختلاف ہے۔

(شامی، ردالمختار، 1 : 506)

خلاصہ یہ ہوا کہ مرد اور عورت کی نماز کا طریقہ ایک جیسا نہیں ہے، بلکہ کئی جگہوں میں فرق ہے جن میں سے ایک سجدہ بھی ہے، چناں چہ مرد کے لیے سجدہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ:

۱-تمام اعضا جداجداہوں، ہاتھ بغلوں سے اوررانیں پیٹ سے الگ ہو ں۔
۲-سرین کاحصہ اوپرکی طرف ہو۔
۳-ہاتھ زمین پرنہ بچھائے ؛بل کہ اٹھائے رکھے۔
۴-پیروں کے پنجے کھڑے کرکے ان کی انگلیاں قبلہ کی طرف کردے۔
اورعورت ان تمام امورمیں مرد سے مختلف ہے؛ چناں چہ اس کو چاہیے کہ وہ سجدہ اس طرح کرے کہ :
۱-اس کے تمام اعضا ملے ہوئے ہوں، ہاتھ بغلوں سے ،رانیں پیٹ سے ملی ہوئی ہوں۔
اس کی وجہ علامہ حصکفی رحمہ اللہ نے درمختارمیں یہ لکھی ہے کہ اس میں عورت کے لیے زیادہ پردہ ہے۔
۲-سرین کے حصے کواوپرکی طرف نہ اٹھائے؛ بل کہ اپنے جسم کوحتی الامکان زمین سے ملاکر پست رکھے ۔

۳-اپنے ہاتھوں کوزمین پر بچھاکر رکھے، مردکی طرح اٹھاکرنہ رکھے ۔
۴-اپنے دونوں پیرایک طرف(دا ہنی طرف کو) نکال دے اوراپنے پیروں کوکھڑا نہ کرے۔

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب

کتبہ: افتخار الحسن رضوی

اپنی رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *