نماز تہجد کی شرائط، رکعات اور وقت

نماز تہجد کی شرائط، رکعات اور وقت


سوال:      نماز تہجد کی شرائط کیا ہیں، اس کی رکعات اور وقت کے بارے مدلل جواب عطا فرمائیں۔

جواب:     نماز تہجد کے بارے میں رسول کریم ﷺ کے متعدد فرامین کتب حدیث میں موجود ہیں۔ خود رسول پاک ﷺ اس نفل نماز کی پابندی فرماتے تھے۔ اللہ تعالٰی نے کتاب مقدس میں اپنے حبیب کریم ﷺ کے لیے فرمایا؛

وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ﳓ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹) (سورہ الاسراء)

ترجمہ: اور (اے حبیب ﷺ) رات کے کچھ حصہ میں تہجد پڑھ لیا کرو یہ خاص تمہارے لیے زیادہ (عبادت) ہے قریب ہے کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں (مقامِ محمود پر)۔

اسی آیت کے تحت مفسرین نے لکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے لیے تہجد کی نماز فرض تھی تاہم امت کے لیے مسنون عمل ہے اور نفل نماز ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تورات کے عالم تھے، مدینہ منورہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چہرہٴ انور دیکھ کر یقین ہوگیا کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں، آپ جھوٹے نہیں ہوسکتے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سب سے پہلا کلام جو آپ کی زبان مبارک سے سنا، وہ یہ تھا:
یا ایہا الناس! افشوا السلام واطعموا الطعام وصلوا الارحام وصلوا باللیل والناس نیام، تدخلوا الجنة بسلام“۔

(ترمذی)
ترجمہ:۔” اے لوگو! سلام کو پھیلاؤ، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، رشتہ داریوں کو جوڑو اور رات میں تہجد کی نماز پڑھو، جبکہ لوگ سورہے ہوں، تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے“۔

مزید ارشاد ارشاد فرمایا:
”جنت میں ایک محل ہے جس کا اندرونی حصہ باہر سے اور باہر کا حصہ اندر سے نظر آتا ہوگا ۔حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے پوچھا:

یا رسول اللہ ﷺ یہ کس کو ملے گا؟

فرمایا: اس کو جو شیریں کلام ہو اور لوگوں کو کھانا کھلاتا ہو اور نماز تہجد میں کھڑے ہوئے رات گذارتا ہو، جبکہ لوگ سورہے ہوں“۔

(طبرانی)

رسول پاک ﷺ نے فرمایا؛

”جو شخص رات میں بیدار ہواور اپنی بیوی کو جگائے پھر دونوں دو دو رکعت پڑھیں تو کثرت سے یاد کرنے والوں (ذاکرین) میں لکھے جائیں گے”۔

(”المستدرک” للحاکم، کتاب صلاۃ التطوع، باب تودیع المنزل برکعتین، الحدیث: ۱۲۳۰، ج۱، ص۶۲۴)

تنہائی میں پڑھی جانے والی یہ نماز اللہ تعالیٰ سے مناجات اور ملاقات کا دروازہ ہے۔’حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

” اللہ تعالیٰ کو تمام نفل نمازوں میں سب سے زیادہ محبوب نماز، صلاۃِ داؤد علیہ السلام ہے۔ وہ آدھی رات سوتے (پھر اٹھ کر) تہائی رات عبادت کرتے اور پھر چھٹے حصے میں سو جاتے۔‘‘

(مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب النهی عن الصوم الدهر لمن تضرر به او فوت به حقاً لم يفطر العيدين، 2 : 816، رقم : 1159)

نمازِ تہجد کی کم از کم دو رکعات ہیں اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعات ہیں۔ تاہم رسول کریم ﷺ سے آٹھ رکعات تسلسل سے ثابت ہیں۔ عشاء کی نماز ادا کر لینے کے بعد سو جائیں، اس کے بعد جس وقت بھی آنکھ کھلے ، تہجد پڑھ سکتے ہیں۔ خواہ سونے کے نصف گھنٹہ بعد ہی آنکھ کھل جائے۔ بہتر وقت نصف شب اور آخر شب ہے، اسی کے فضائل احادیث میں منقول ہوئے ہیں۔ ۔ تہجد کے لیے اٹھنے کا یقین ہو تو آپ عشاء کے وتر چھوڑ سکتے ہیں اس صورت میں وتر کو نماز تہجد کے ساتھ آخر میں پڑھیں یوں بشمول آٹھ نوافلِ تہجد کل گیارہ رکعات بن جائیں گی۔ رات کا اٹھنا یقینی نہ ہو تو وتر نماز عشاء کے ساتھ ہی پڑھ لینا بہتر ہے۔

اُمّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہمیشہ رات کو گیارہ رکعات پڑھتے تھے :

’’ایک رکعت کے ساتھ تمام رکعات کو طاق بنا لیتے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد دائیں کروٹ لیٹ جاتے حتی کہ آپ کے پاس مؤذن آتا پھر آپ دو رکعت (سنت فجر) مختصرًا پڑھتے۔‘‘

(مسلم، الصحيح، کتاب صلوة المسافرين، باب صلوة الليل و عدد رکعات النبی ﷺ فی الليل، 1 : 508، رقم : 736)

نمازِ تہجد کے لیے سونا شرط ہے، کیونکہ اس ضمن میں موجود تمام روایات اس پر دلیل ہیں کہ سارے کے سارے فضائل سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جانے والی نماز کے متعلق بیان ہوئے ہیں۔ اس کا بہتر علم تو اللہ تعالٰی اور اس کے رسول ﷺ ہی کے پاس ہے لیکن اس کی ایک ظاہر وجہ یہی ہے کہ جب انسان بستر پر میٹھی نیند سو رہا ہو تو اس وقت اللہ کی رضا پانے کے لیے اٹھنا ایک مشکل کام ہے، شیطان اس سے ناراض ہوتا ہے اور وہ انسان کو بہکا کر سونے ہی کی طرف لے جاتا ہے، ایسے میں جو شخص شیطان کو شکست دے کر اٹھ جائے اور اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جائے تو اس میں شیطان کی شکست اور مؤمن کی فتح ہے۔

جو لوگ شب بھر جاگتے ہیں، وہ رات گئے جو نوافل پڑھتے ہیں وہ تہجد میں شمار نہیں ہوں گے کیونکہ انہوں نے سونے کی شرط پوری نہیں کی۔ تاہم وہ ثواب اور خیر سے محروم نہیں رہیں گے۔ ان کے یہ نوافل قیام الیل میں شمار ہوں گے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

کتبہ: علامہ افتخار الحسن رضوی

اپنی رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *