Whatsapp-War-2

از: افتخار الحسن رضوی

امریکہ، برطانیہ، یورپ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور مشرق بعید میں واقع امیر ممالک سمیت دنیا کے اکثر  ممالک نے سیاحتی و کاروباری ویزوں کے لیے بھارتی  ایجنسی VFS کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانی High Profile Professionals ، پاکستانی سرکاری نمائندوں، سیاستدانوں اور مزدوروں سمیت ہر وہ فرد جو مغربی ممالک کے لیے ویزہ درخواست دیتا ہے، اسے VFS کا پلیٹ فارم ہی استعمال کرنا ہوتا ہے۔ VFS بائیو میٹرک سسٹم جو کہ متعلقہ ملک کے ایمبیسی سے  جڑا ہوتا ہے، وہ سارا مواد اور درخواست گزار کی مکمل معلومات اپنے Central Database میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیتا ہے۔  یوں یورپ و امریکہ جانے والے ہر پاکستانی  بشمول پاکستانی وزراء کے مکمل معلومات ان کے پاس درج ہوتی ہیں۔  تاہم  گزشتہ برس یعنی سال ۲۰۲۰ کے اوائل سے امریکہ نے فیس بک ، ٹویٹر اور گوگل وغیرہ کی مدد سے  درخواست گزاروں کے سوشل میڈیا اکاونٹس کی  جانچ بھی شروع کر رکھی ہے۔  امریکی حکام تو باقاعدہ ائیرپورٹس پر آنے والوں سے لیپ ٹاپ، ٹیب، اور فون وغیرہ کو switch on رکھنے کے لیے کہتے ہیں اور ان devices کی مکمل چھان بین کرتے ہیں۔  فیس بک نے امریکی حکومت کے ساتھ سب سے زیادہ تعاون کیا ہے۔   یہی وجہ ہے کہ سال ۲۰۱۸۔۲۰۲۰ کے درمیان پاکستانیوں کو امریکی ویزوں کے اجراء میں ریکارڈ کمی لائی گئی۔ فیس بک اور سوشل میڈیا انجنز کی مدد سے امریکہ و مغرب کے لیے یہ سمجھنا اور جانچنا آسان ہو گیا ہے کہ کون سا مسلمان یا پاکستانی ان کے لیے بے ضرر ہے اور کون نظریاتی مسلمان ان پر تنقید کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد بہکے ہوئے مولویں، مشائخ اور پیروں کو تاحال بآسانی ویزے مل جاتے ہیں، کیونکہ یہ ہومیوپیتھک علامے ہوتے ہیں، ان کے وجود سے امریکہ کے لیے کوئی نقصان ہے، نہ پاکستان و  اسلام کے لیے کوئی فائدہ۔

میرے جاننے والوں میں تین لوگ خلیجی ممالک میں مقیم ہیں۔ ان تینوں کو الگ الگ اوقات اور تواریخ میں ایک ملک سے دوسرے ملک داخل ہوتے وقت  امیگریشن حکام نے روک کر مکمل تفتیش کی۔ اس تفتیش میں ان کے موبائل فونز  ، فیس بک، وٹس ایپ وغیرہ کا مکمل جائزہ لیا گیا۔ علامہ رضوی علیہ الرحمہ کی تقاریر سننے پر  متنبہ کیا گیا اور یہ ساری معلومات فیس بک سے جمع کی گئی تھیں۔ یہ حقیقت سمجھ لیجیے کہ فیس بک کے جنوبی اور وسطی ایشیائی دفاتر میں جنونی نظریاتی ہندو سوشل میڈیا ایکسپرٹس کام کر  رہے ہیں۔ فیس بک نے براہ راست ہندوستانی حکومت کے ساتھ کاروباری  شراکت کر رکھی ہے اور ہندوستان کے دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز کی مفت خدمات، تعلیم و ترقی، social awareness اور war against extremism  کے نام پر متعدد مہمات شروع کر رکھی ہیں۔    فیس بک کے مالک  مارک زکربرگ  کی ہندوستان میں نہ صرف خصوصی دلچسپی ہے بلکہ وہ ہندوستان کا بڑا منظم دورہ بھی کر چکا ہے۔ فیس بک کے یہی ہندو ملازمین ہی پاکستانی علماء کی تصاویر، ویڈیوز، بیانات، تحاریر وغیرہ نہ صرف بلاک کرتے ہیں بلکہ علامہ رضوی علیہ الرحمہ اور تحریک لبیک کے ایک سابق قائد  کا نام تک لکھنے پر وارننگ جاری کر دیتے ہیں۔ فیس بک  کے یہ ہندو ملازمین، اردو، پنجابی،  گجراتی، مراٹھی،  ملیالم ،  کشمیری، ہندی، بنگالی، سندھی سمیت متعدد علاقائی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔  یہ ہندو ملازمین  moderators کی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں، فیس بک کا خود کار نظام انتہائی فعال اور مضبوط ہے، یہی وجہ ہے کہ فیس بک کے so called community standards سے مطابقت نہ رکھنے والا مواد فورا بلاک کر دیا جاتا ہے۔

۹ فروری ۲۰۲۱ کے بعد جب فیس بک اپنی ذیلی پروڈکٹ واٹس ایپ سے data sharing agreement منوا لے گا اور واٹس ایپ کے صارفین اس پر مجبور کر دیے جائیں گے، تو اس کے بعد وٹس ایپ پر لکھے ہوئے آپ کے میسج کے زبر زیر اور پیش سمیت سب کچھ فیس بک کے مکمل کنٹرول میں ہو گا۔ فیس بک  آپ کا وٹس ایپ ڈیٹا ڈونلڈ ٹرمپ کے اس  نظریے کی نذر کر دے گا جس میں اس نے کہا تھا کہ ہم ہر اس جگہ پر حملہ کریں گے جہاں سے امریکی مفادات کو خطرہ ہو گا۔  آپ کے اہل خانہ کی تصاویر، کاروباری معاملات، دینی معاملات سے لے کر ہر وہ بات جو آپ اپنی بیوی، شوہر اور اولاد کو نہیں بتاتے، فیس بک اس سے واقف ہو گا۔ فیس بک اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے آپ کا مکمل ڈیٹا، آپ کی لوکیشن، نام، عمر، ازدواجی حیثیت، اولاد، افراد خانہ، آپ کی خوشی غمی، سفری ریکارڈ، گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کہاں سے گیس لی، پٹرول لیا، پانی پیا، نماز پڑھی، سڑک پر سفر کیا، یا جہاز پر گئے، سمندر سے گئے، یا جنگل سے گزرے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ سب کچھ ان کے دائرہ اختیار و ضبط میں ہو گا۔ کیونکہ آپ یہ شرائط قبول کر چکے ہوں گے، لہٰذا فیس بک کسی بھی ملک کی ایجنسیوں کے مطالبے پر یہ ڈیٹا شئیر کر سکے گا۔ خصوصا امریکہ اور امریکی اتحادیوں کے لیے یہ بہت بڑا سہولت کار ہو گا۔

یہ حقیقت پیشِ نظر رہے کہ اس وقت امریکہ کی جنگ کسی یہودی، ہندو اور عیسائی یا بدھ مت سے نہیں، عراق، شام، افغانستان، بلاد خلیج و عرب ہوں یا پھر ترکی، ہر طرف مسلمان ہی تختہ مشق ہیں۔ ان ممالک میں بھی خصوصا سب سے بڑا  ہدف پاکستان ہے اور اس کی وجہ پاکستانی عوام کا نظریاتی مسلمان ہونا، رسول اللہ ﷺ کی ناموس  پر کٹ مرنے کا جذبہ، وطن سے محبت اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے دیگر مسلمانوں کے لیے اخوت و محبت کی فکر ہے۔ اس لیے  یہ حقیقت آنکھیں کھول کر دیکھ لیں اور سمجھ لیں کہ یہ fifth generation war کی بدلتی ہوئی صورت حال ہے، جو ہمارے لیے نئی ہو سکتی ہے تاہم یہ امریکی long term planning  کا لازمی و قطعی حصہ ہے۔  امریکی سیاسی، عسکری اور جاسوسی اداروں نے اپنے ملک کی سیکیورٹی، عیسائیت کے مفادات اور اپنے نظریات کی بنیاد knowledge base planning پر رکھی ہے۔ اس کے بر عکس  بلاد اسلامیہ عموماً اور پاکستان خصوصاً جذباتیت، منافقت، مکروہ سیاست اور سائنسی ترقی سے یکسر محروم ہے۔

(جاری ہے)

کتبہ: افتخار الحسن رضوی

۱۱ جنوری ۲۰۲۱

اپنی رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *