کتابیہ عورت سے نکاح کا حکم


سوال:      آج کل کے دور میں جو یہود و نصاریٰ ہیں ، کیا  یہ اہل کتاب ہیں؟ اور کیا ان سے نکاح کرنا جائز ہے؟

الجواب:    یہود و نصارٰی بالکل اہل کتاب ہیں۔ آسمانی کتب   ان کے عقائد و شریعت کا حصہ ہیں، وہ الگ بات ہے کہ اس میں تحریفات کی جا چکی ہیں اور انہوں نے اپنے حالات و معاشرت کے مطابق انہیں تبدیل کر لیا ہے۔ اہل کتاب کے ہاتھوں ذبح  کیے گئے   جانور کا گوشت کھانا بھی جائز ہے لیکن اس میں ان کا واقعی اہل کتاب ہونا لازمی ہے۔ (اس کے  مفصل احکام الگ سے موجود ہیں)۔ اسی طرح  ان سے  نکاح کرنا  بھی جائز ہے۔

قرآن مقدس فرماتا ہے؛

الیوم احل لکم الطیبت وطعام الذین اوتوا الکتب حل لکم وطعامکم حل لھم والمحصنت من المؤمنت والمحصنت من الذین اوتوا الکتب من قبلکم اذا اتیتموھن اجورھن ۲؎۔

ترجمہ: آج کے دن ستھری چیزیں تمھارے لیے حلال کی گئیں اور کتابیوں کا ذبیحہ تمھارے لیے حلال ہے اور تمھاراذبیحہ ان کے لیے حلال ہے اور تمھارے لیے حلال کی گئیں پارسا مسلمان عورتیں اور عفت والی کتابیہ عورتیں جب تم انھیں ان کے مہر دو۔

مندرجہ بالا آیت  مبارکہ میں  دو مسئلوں کی وضاحت ہو گئی۔ ایک یہ کہ اہل کتاب کے ہاتھ کا ذبیحہ جائز ہے اور دوسرا یہ کہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا بھی درست ہے۔   لیکن یہاں یہ احتیاط بھی ضروری ہے کہ موجودہ دور کے مغربی عیسائیوں کے ایک خاص تعداد   “دہریت اور الحاد” کا شکار  ہو چکی ہے، یوں وہ اہل کتاب ہی نہ رہے، لہٰذا ان کے ہاتھ کا ذبیحہ اور ان کی عورتوں کے ساتھ نکاح بھی جائز نہیں رہا۔

یہاں یہ مسئلہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ مسلمان مرد صرف  کتابیہ عورت سے نکاح کر سکتا ہے، مشرکہ کے ساتھ نکاح نہیں ہو سکتا؛مشرکہ کے ساتھ نکاح نہ کرنے کی ممانعت قرآن مقدس میں موجود ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالٰی عزوجل ہے؛

لاتنکحوا المشرکت حتی یومن ولامۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ ولو اعجبتکم؎۔

ترجمہ: مشرکہ یعنی غیر کتابیہ سے نکاح نہ کرو جب تک ایمان نہ لائیں اور بیشک ایک مسلمان باندی کافرہ غیر کتابیہ سے اچھی ہے اگرچہ وہ کافرہ تمھیں پسند  آئے۔

اہل کتاب سے نکاح کے متعلق چند اہم مسائل:

کتابیہ سے نکاح جائز ہے لیکن مشرکہ (ہندو ، سکھ یا بدھ مت وغیرہ  ، وہ مذاہب جن کے پاس آسمانی کتاب نہیں) کے ساتھ نکاح جائز نہیں تا وقتیکہ وہ اسلام قبول نہ کر لیں۔

الدرالمختار” و”رد المحتار”،کتاب النکاح، فصل في المحرمات، مطلب: مھم في وطء السراري اللاتي… إلخ، ج۴، ص۱۳۲تا۱۳۴۔

”الفتاوی الرضویۃ”، ج۱۵، ص۶۲۱،۶۲۲.

مسلمان عورت کا نکاح مسلمان مرد کے سوا کسی مذہب والے سے نہیں ہوسکتا اور مسلمان کے نکاح میں کتابیہ ہے، اس کے بعد مسلمان عورت سے نکاح کیا یا مسلمان عورت نکاح میں تھی، اس کے ہوتے ہوئے کتابیہ سے نکاح صحیح ہے۔

(”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب النکاح،الباب الثالث في بیان المحرمات،القسم الثامن،ج۱،ص۲۸۲.)

یہ اجازت صرف مسلمان مردوں کو ہے مسلمان عورت کا نکاح کتابی مرد سے قطعی حرام ہے۔

اہلِ کتاب عورتوں میں سے اچھے کردار والی سے نکاح کیا جائے یہ حکم مستحب ہے۔

اہلِ کتاب عورت سے ازدواجی تعلقات نکاح کے ذریعے ہی قائم کئے جائیں ، پوشیدہ دوستیاں لگانایا پوشیدہ یا اعلانیہ بدکاری کرنا ان کے ساتھ بھی حرام ہے۔ اہلِ کتاب عورت کو بھی مہر دیا جائے گا۔

جو مسلمان عورت  اسلام چھوڑ کر عیسائی یا یہودی  یا مشرکہ و دہریہ ہو گئی اس سے نکاح جائز نہیں کیونکہ وہ مرتد ہو چکی ہے۔

کتبہ: علامہ افتخار الحسن رضوی

9 جمادی الاول، 1437 مطابق 18 فروری 2016

اپنی رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *