ماہِ محرم و یومِ عاشوراء کی فضیلت

(از، افتخار الحسن رضوی)

 بسم الله، والحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه ومَنْ والاه وبعد.

اللہ تعالٰی کا فرمان ہے؛

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ عِندَ اللَّهِ اثنا عَشَرَ شَهرًا فى كِتـٰبِ اللَّهِ يَومَ خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضَ مِنها أَربَعَةٌ حُرُمٌ ذ‌ٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ فَلا تَظلِموا فيهِنَّ أَنفُسَكُم۔

ترجمہ: بےشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں ،  اللہ کی کتاب میں ، جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں،  یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں ،  اپنی جان پر ظلم نہ کرو ۔

تین متّصِل یعنی یکے بعد دیگرے  ذوالقعدہ و ذوالحِجّہ  اور  محرّم ہیں، جب کہ ایک مہینہ  یعنی رجب جدا ہے۔ عرب لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کی تعظیم کرتے تھے اور ان میں قتال حرام جانتے تھے ۔ اسلام میں ان مہینوں کی حرمت و عظمت اور زیادہ کی گئی ۔ یہاں ہم محرم الحرام کی حرمت، فضیلت اور مناسبت سے بات کر رہے ہیں۔

مذکورہ بالا آیت سے یہ حقیقت تو واضح ہو گئی کہ ماہِ  محرم کی فضیلت قبل از اسلام دور سے چلتی آ رہی ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں متعدد تاریخی واقعات اسی ماہ میں پیش آئے۔ لیکن محرم کی فضیلت کو صرف قبل از اسلام دور سے نتھی کرنا دینا بھی خلاف عقل و ادب ہے کہ اہل اسلام کے ہاں اس ماہ کی فضیلت و احترام میں واقعہ کربلا کا اہم کردار بھی شامل ہے۔  نبی رحمت ﷺ کے چند فرامین پیشِ خدمت ہیں؛

افضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرم۔(رواہ مسلم)

’’رمضان کےبعد افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں”۔

اسی ماہ محرم  کی دسویں تاریخ یعنی یوم عاشوراء تاریخی اعتبار سے اہمیت والا دن ہے۔ یہودی مذہب میں اس دن کا روزہ اس لیے رکھا جاتا تھا کہ دسویں محرم کے دن اللہ تعالٰی نے فرعون کو غرق فرمایا اور یہودی قوم کو نجات عطا ہوئی۔  رسول اللہ ﷺ نے اس دن خود بھی روزہ رکھا اور اپنے أصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ نبی رحمت ﷺ نے فرمایا ہم یہود کی نسبت سیدنا موسٰی علٰی نبینا وعلیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں۔  

رمضان المبارک کے بعد محرم کے روزے سب سے افضل ہیں۔ مصطفٰی جانِ رحمت ﷺنے ارشاد فرمایا؛

“عاشوراء کا روزہ یہ ایک سال گزشتہ گناہ کا کفارہ ہے “۔

(رواہ مسلم)

دیگر اسلامی یا ہجری مہینوں کے برعکس محرم ایک ایسا مہینہ ہے جس کا احترام دور جاہلیت میں بھی موجود تھا۔  ام المؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہاسے روایت ہے ؛

کانت قریش تصوم عاشوراء ف الجاہلیة ، وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصومہ، فلما ہاجر لی المدینة صامہ وأمر بصیامہ ، فلما فرض شہر رمضان قال: من شاء صامہ ، ومن شاء ترکہ۔

ترجمہ: “زمانہ جاہلیت میں قریش کے لوگ عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ﷺ بھی روزہ رکھتے تھے تاہم جب  آپ ﷺمدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ  ﷺ نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی رکھنے کا حکم دیا پھر جب رمضان کے مہینے کا روزہ فرض ہوا تو آپ  ﷺنے فرمایا ، جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے ۔

(رواہ مسلم)

واقعہ کربلا اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے اگرچہ اس دن کی کوئی فضیلت منسوب نہیں ہے اور یزیدی و ناصبی  فکر سے متاثر محققین ، مؤرخین، لکھاری اور واعظین  اس کا ذکر کرتے ہوئے  یہ نکات بالخصوص بیان کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ جہاں  انبیاء سابقین علیہم السلام کے قوانین شریعت منسوخ ہوئے وہیں اہل اسلام کے لیے ان ایام کو منانا یا نہ منانا بھی اہم نہ رہا۔ ہمارے نزدیک تو اہمیت یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس دون روزہ رکھا ۔ اب اگر دسویں محرم کے دن امام حسین و دیگر جانثاران اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی شہادت اس دن ہوئی تو یقینا یہ دن یہود کے فرعون سے نجات پانے کی نسبت زیادہ اہم ہے۔ کوئی شقی القلب،  دجل و فریب اور فتن و نفاق کا منبع ہی ہو گا جسے دسویں محرم کو امام حسین کی نسبت  کچھ فضیلت واہمیت نظر نہ آئے۔ اپنی والدہ یا والد کے جو  صحابی ہیں نہ تابعی، کوئی عالم ہیں نہ زہد و فقر کے راہی، ان کے ایام سے انسیت و یادیں وابستہ ہو جاتی ہیں تو جب  رسول اللہ ﷺ کے شہزادے دسویں محرم کو  شہید کر دیے جائیں تو یہ دن کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔

دسویں محرم یعنی یومِ عاشور روزہ رکھیں، افطار سے قبل قرآن خوانی کریں، اہل بیت کی شان میں نازل ہونے والی آیات،  ان سے متعلق صحیح احادیث اور اسلاف کے اقوال و معمولات بیان کریں۔ اس ذکر کی برکت سے آپ کے ایمان و صحت میں برکت کے ساتھ ساتھ اچھی نسلیں بھی عطا فرمائے گا۔

(صراط الخیر حلقہ امریکہ و یورپ  میں ہونے والے بیان سے اقتباس)

4 محرم الحرام 1443، 12 اگست 2021