ہمارے متعلق

تعارف:

فضیلۃ الشیخ علامہ افتخار الحسن رضوی (حفظہ اللہ) کا شمار عصر حاضر کے ان خاص خدامِ دین میں ہوتا ہے جو تبلیغِ دین، اشاعتِ قرآن و سنت ، خدمتِ خلق، انسانی ترقی و فلاح اور اتحادِ بین المسلمین   کے نہ صرف علمبردار ہیں بلکہ وہ عملی طور پر اس میدان میں کوشاں ہیں۔ حضرت کا مختصر تعارفی خاکہ حسبِ ذیل ہے۔

ولادت:

 آپ کی ولادت 11 جون 1983 بروز ہفتہ بمطابق 29 شعبان 1403 ھ کو اپنے ننھیال گاؤں “تولہ” میں ہوئی۔ آپ کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے پرانے گجر قبیلہ سے ہے۔ آپ کا پیدائشی گاؤں پاکستانی پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں واقع ہے۔ حضرت کے دادا اور نانا کے خاندان تقسیم ہند کے بعد مقبوضہ جموں سے ہجر ت کے بعد اسی علاقے میں آ کر آباد ہوئے، بعد ازاں خاندان کے کچھ افراد گجرانولہ اور آزاد کشمیر کی تحصیل ڈڈیال (میرپور) سمیت مختلف شہروں میں آباد ہوئے۔

Allama Iftikhar Ul Hassan Rizvi
فضیلۃ الشیخ حضرت علامہ افتخار الحسن رضوی حفظہ اللہ

دینی تعلیم:

تحفیظ القرآن                                  تجوید القرآن                                         درسِ نظامی

دنیا کی مختلف جامعات و اداروں سے اقتصادِ اسلامی، ادارۃ الاعمال اور تسویق و اسلامی ادارتی نظام میں تخصص و شہادات۔

بلادِ عرب ، ترکی و مشرقی افریقہ کے متعدد شیوخ سے علومِ قرآن و حدیث اور فقہ میں اسانید و اجازات۔

عصری تعلیم:

اس کے علاوہ اپنے پیشے سے متعلق متعدد کورسز اور ورکشاپس میں شرکت کر چکے ہیں۔

ذیل میں ان اساتذہ کرام و مشائخ عظام کے اسمائے گرامی ہیں جن میں سے بعض سے علامہ افتخار الحسن رضوی نے براہ راست شرفِ تلمذ حاصل کیا، علوم قرآن و حدیث میں اسانید و اجازات حاصل کیں اوران میں سے بعض سے سلاسلِ طریقت و تصوف میں خلافت و اجازت پائی۔

نائبِ محدثِ اعظم (پاکستان) شیخ الحدیث مولانا ابو محمد، محمد عبد الرشید رضوی علیہ الرحمہ (دار العلوم غوثیہ رضویہ مظہرِ اسلام، سمندری، فیصل آباد، پاکستان)

مناظر اسلام ، شیخ الحدیث والتفسیر پیر سید مراتب علی شاہ سیالوی علیہ الرحمہ (جامعہ رضویہ قمر الاسلام، گجرانوالہ)

شیخ الاسلام سید محمد مدنی میاں اشرفی حفظہ اللہ تعالٰی (کچھوچھہ شریف، ہندوستان)

فضیلۃ الشیخ استاذ عبد اللہ عبد الرحمٰن عبد العال (مصر)

شیخ عمر محمد سالم حفیظ (یمن)

شیخ عبد الحمید محمد سالم قادری بدایونی ، ہند(شہید بغداد علامہ اسید الحق قادری علیہ الرحمہ کے والد گرامی)

فضیلۃ الشیخ استاذ حسن محمد طنطاوی (مصر)

فخر السادات فضیلۃ الشیخ سید ابراہیم الخلیفہ

مولانا الحاج گلزار احمد رضوی (ڈڈیال آزاد کشمیر، حضرت کے اولین استاد اور چچا جان)

شیخ طریقت سید مسعود کوثر نقشبندی (ترکی)

شیخ محمد سالم حقانی (قبرص)

شیخ مالک محمد العلوی (مراکش)

شیخ ابراہیم طوالبہ (اردن)

(مذکورہ مشائخ کے علاوہ متعدد عالی قدر ایسے اساتذہ ہیں جن سے مروج علوم حاصل کیے، ان کا ذکر خیر بعد میں آنے والے تفصیلی تعارف میں پیش کیا جائے گا)

سلسلہ روزگار:

ابتداً پاکستان میں فارمیسی کے کام سے وابستہ رہے لیکن مختصر وقت کے بعد اپنے پسندیدہ پیشہ یعنی تدریس میں مشغول ہو گئے۔ سال 2006 میں پاکستان سے باہر منتقل ہو گئے تھے۔ گزشتہ چودہ برسوں میں عمان، متحدہ عرب امارات، بحرین اور سعودی عرب کے مختلف مدارس و جامعات میں بطور مدرس خدمات سر انجام دینے کے علاوہ معروف بین الاقوامی کنسٹرکشن کیمکلز بنانے والی فرمز, CCC, Dow Chemicals, Tremco illbruck اور GE Momentive کے ساتھ بزنس کنسلٹنٹ کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ عرب افریقہ تجارتی سیمینارز، عرب ترک تجارتی گروپ سمیت متعدد عالمی سیمینارز میں اقتصادیات، تجارت اور کاروبار پر لیکچرز اور مقالہ جات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ہند و پاک، ملائیشیا، ترکی، لبنان، برطانیہ اور امریکہ کے متعدد اداروں میں جز وقتی استاد کے طور پر “اقتصاد اسلامی، بزنس مینیجمنٹ، اسلامی تجارتی و صنعتی اصول” جیسے عنوانات پر لیکچرز دے چکے ہیں۔

علامہ افتخار الحسن رضوی حفظہ اللہ نے تبلیغِ دین اور خدمتِ خلق کے اس سفر میں خود کو مالی طور پر عطیات سے بچانے کے لیے خلیجی ممالک میں کسنٹرکشن کیمکلز کی صنعت میں محدود پیمانے پر اپنا کاروبار کر رکھا ہے جس سے وہ حسبِ ضرورت کما کر اپنے اہل خانہ کی کفالت کرلیتے ہیں۔ دینی میدان میں حضرت موصوف دام ظلہ دیگر خدامِ دین میں اس اعتبار سے ایک روشن مثال ہیں۔

بیرون ممالک میں اسفار:

حضرت علامہ صاحب قبلہ درجِ ذیل ممالک میں دینی و تبلیغی اسفار کر چکے ہیں جہاں بلا شبہ سینکڑوں لوگ ان کی صحبت سے فیض یاب ہو کر اپنی دینی ، ایمانی، اعتقادی و فقہی غلط فہمیاں دور کر نے کے علاوہ اپنے مسائل کے لیے روحانی علاج سے بھی مستفید ہو چکے ہیں؛

مندرجہ بالا ممالک کی فہرست میں بڑی تعداد افریقی ممالک کی ہے، یہ وہ ممالک ہیں جہاں علامہ صاحب اور ان کے معاونین کی محنت سے متعدد مساجد کی بحالی، مدارس کی تعمیر، یتیم خانے، سالانہ زکوٰۃ، قربانی اور اشیاء خوردونوش کا انتظام کیا جاتا ہے۔

بچپن:

علامہ افتخار الحسن رضوی کے بچپن کے ابتدائی ایام اپنے ددھیال گاؤں “بروال” اور ننھیال گاؤں “تولہ” میں گزرے۔ ان کے دادا اسی علاقے میں زمینداری کرتے تھے اور والد پاکستان آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد اسی علاقے میں فارمیسی کا بزنس کرتے رہے۔ حضرت کے والد سلسلہ نقشبندیہ میں قطب الارشاد پیر سید ارشاد حسین شاہ (مراڑہ شریف) سے بیعت ہیں اور روحانی علاج و عملیات میں ماہر و معروف ہیں۔ آپ نے سکول کے ابتدائی دو درجے گورنمنٹ پرائمری سکول بروال سے طے کیے، بعد ازاں اپنے کریم و عظیم چچا مولانا الحاج گلزار احمد رضوی کے پاس “بہاری” تحصیل ڈڈیال ضلع میرپور منتقل ہو گئے۔ حاجی گلزار احمد صاحب پیشے کے اعتبار سے گورنمنٹ سکول میں استاد تھے، اس دوران جہاں جہاں ان کی ملازمت رہی انہوں نے اپنے بھتیجے کو ساتھ رکھا۔ گورنمنٹ ہائی سکول بلوح ( تحصیل ڈڈیال) اور گورنمنٹ پائلٹ ہائی سکول ڈڈیال میں بھی زیرِ تعلیم رہے۔ حضرت خود بتاتے ہیں کہ علمِ دین کے شوق اور چچا جان کی کمال تربیت کی وجہ سے وہ اس چھوٹی عمر میں قرآنِ کریم کی بہترین تلاوت، خطاطی اور اردو زبان میں مہارت کی وجہ سے پورے سکول میں ممتاز تھے۔

والدہ ماجدہ کا سانحہ شہادت:

آپ کے ددھیال گاؤں بروال میں خاندانی عداوت اور سیاسی اختلافات موجود تھے۔ یہ اختلافات اس درجہ شدت اختیار کر گئے کہ 2 اکتوبر 1991 بروز بدھ علی الصبح گھر پر ہونے والے ایک حملے کے نتیجے میں والدہ شہید ہو گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

والدہ رحمۃ اللہ علیہا   ایک سادہ و دیہاتی خاتون تھیں، انتہائی بے ضرر، ملنسار اور معاشرے میں عزت رکھتی تھیں۔ غرباء، مساکین اور اہل محلہ کی خدمت میں پیش پیش رہتی تھیں۔ حضرت اپنی والدہ سے متعلق کہا کرتے ہیں کہ “ذہن و قلب میں موجود ماں کی تصویر مجھے گناہوں سے روکے رکھتی ہے”۔ والدہ شہیدہ علیہا الرحمہ کی قبر شریف بروال گاؤں کے قبرستان میں ان کے آباء کے ساتھ ہی واقع ہے جہاں خاندان کے دیگر شہداء، آباء و اجداد اور رشتے دار مدفون ہیں۔

والدہ کی شہادت کے بعد ان کا خاندان بروال سے گوجرانوالہ منتقل ہو گیا تھا لیکن حضرت اپنے چچا جان کے ہاں بہاری (آزاد کشمیر) میں ہی مقیم رہے۔پرائمری سکول کے بعد مرکزی جامع مسجد ڈڈیال میں   کچھ پارے حفظ کیے بعد ازاں گجرانوالہ میں “جامعہ عربیہ” سے قرآن کریم مکمل حفظ کیا۔ اچھے حافظے اور بہترین تجوید و تلفظ کی وجہ سے کئی مقابلوں میں اول ٹھہرے۔ جون 1999   میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ایک مقابلے میں امتیازی حیثیت سے کامیاب ہوئے اور اس وقت کے صدرِ پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ کے ہاتھوں سند اور انعامات وصول کیے۔  گزشتہ بیس سے زائد برسوں میں مسلسل نمازِ تراویح میں قرآن کریم سنا رہے ہیں۔

حضرت کے “یارِ خاص” کاشف سلیم قادری بھائی کی والدہ کا انتقال ہوا تو لندن سے شیفیلڈ جاتے ہوئے راستے میں متعدد بار ان کی ہچکی بندی، آنسوؤں کی نہ تھمنے والی برسات نے انہیں نڈھال کر دیا۔ مرحومہ کی وصیت تھی کہ ان کا جنازہ علامہ صاحب پڑھائیں گے کیونکہ خلیجی ممالک میں دوران ملازمت علامہ صاحب انہیں ماں جی اور وہ انہیں بیٹا کہہ کر بلاتی تھیں ۔ ہماری زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب ہمیں احساس ہوا کہ علامہ صاحب اپنی والدہ کی یاد میں کس قدر غرق رہتے ہیں۔ حضرت بتاتے ہیں کہ ان کی والدہ کی شہادت کے بعد ان کے خاندان سے “برکت” اٹھ گئی تھی اور اس سلسلہ میں ان کے دادا جان علیہ الرحمہ نے کہا تھا میری بیٹی کی شہادت کے بعد اس خاندان میں برکت نہیں رہی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ گاؤں سے گجرانوالہ منتقل ہونے کے بعد ان کے والد متعدد بار کاروبار میں ناکام ہوئے، غربت و افلاس اور تنگی کے دنوں نے بہت پریشان کیے رکھے، اس دوران متعدد بار ہجرتیں اور مشکلیں برداشت کیں۔ نجی محافل ہوں یا پھر عوامی اجتماعات، کئی بار وہ اس حقیقت کا بر ملا اعتراف کر چکے ہیں کہ “ماں کی عدم موجودگی نے مجھے ، میری بہن اور بھائی کو اتنا منتشر کیا ہے کہ ہیروشیما پر گرنے والا بم ہمیں ہلکا محسوس ہوتا ہے”۔ اس کے بر عکس آنے والے برسوں میں بین الاقوامی فورمز پر اپنی کامیابی کے پیشِ نظر فرماتے ہیں؛

ماں دنیا سے تو چلی گئی، لیکن انتشار و تقسیم کے باوجود ماں کا تصور، قلب و ذہن میں اس کی موجودگی اور اس کا وجود ہمیں اتنا مضبوط کر گیا کہ آج حالات کے سامنے ہم تینوں بہن بھائی اس قدر مضبوط ہیں کہ ہمیں گرانے کے لیے بڑے پہلوان بیساکھیوں پر آ گئے”۔

اپنے کام کے ساتھ اخلاص، اہداف کے حصول میں “چُپ مشن” پر کاربند رہنا اور اللہ و رسول عزوجل و ﷺ کی رضا کے سامنے اپنے مفادات قربان کر دینا ان کا طرہ امتیاز ہے۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے سیاسی، عسکری و سفارتی حلقوں میں مقامی و بین الاقوامی مشاہیر و زعماء انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کئی بار ایسے واقعات پیش آئے کہ بعض لوگوں نے انہیں تنقید کی آڑ میں   بہت نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن وہ مسکراتے ہوئے یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ بدلہ اس سے لو جو آپ سے طاقتور ہو، جو کمزور ہے اس پر بدلے کی آڑ میں ہمیشہ زیادتی ہی ہوتی ہے۔

افریقی ملک تنزانیہ کے ایک دور دراز گاؤں میں برطانیہ، عرب اور مشرق بعید سے آئے ہوئے دوستوں کے ساتھ سفر جاری تھا، ایک جگہ نماز ادا کرنے کے بعد مسجد سے نکلے تو باہر ایک ضعیف عورت اپنی ایک جواں سالہ بیٹی کے ساتھ بھیک مانگ رہی تھی، اس عورت کے جسم پر لباس کٹا پھٹا سا تھا اور اس کی بیٹی بیماری کی وجہ سے لاغر تھی۔ ماں بیٹی کے کپڑے کیچڑ او رمٹی لگنے کی وجہ سے گندے تھے، پوری ٹیم گاڑی میں سوار ہو گئی لیکن علامہ صاحب باہر کھڑے رہے، ہمارے مقامی گائیڈ اور دوست عیدی نے جا کر دیکھا تو علامہ صاحب اس بوڑھی خاتون سے زبان نہ جاننے کے باوجود باتیں کرتے ہوئے رو رہے تھے، پھر ہمیں بلا کر فرمایا ” یہ ماں ہے، اور میں اس سرز مین پر ماں کی تلاش میں آیا ہوں“۔ اس کے بعد فوراً   علی عمران قادری بھائی کی ذمہ داری لگائی کہ ان دونوں ماں بیٹی کو دار السلام پہنچا کر ان کے علاج کا انتظام کیا جائے، ساتھ کچھ نقد رقم بھی دی اور ان کے لیے کھانے کا انتظام کیا۔ اس بوڑھی عورت نے آگے بڑھ کر علامہ صاحب کا ماتھا چوما، اس دوران اس کے کپڑوں پر لگی کیچڑ سے علامہ صاحب کی قمیص پر نمایاں داغ لگ گئے۔ وقت مختصر تھا اور یہاں سے ہمیں سیدھا دار السلام پہنچ کر تنزانیہ کی نائب صدر محترمہ   سمیہ سلوحو سے ملاقات میں شامل ہونا تھا، حضرت نے اخلاص و سادگی کی مثال قائم کرتے ہوئے اسی لباس میں جا کر ملاقات کی ، تنزانیہ کی نائب صدر کو واقعہ کا علم ہوا تو انہوں نے فوراً متعلقہ ہسپتال یا ادارے کو فون کر کے اس خاتون کا بہترین علاج کرنے کا حکم دیا اور ہماری پوری ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔ اس سارے واقعہ کے بعد حضرت نے ایک سادہ مگر دل موہ لینے والا جملہ ارشاد فرمایا کہ؛

آج امی قبر میں بہت خوش ہوں گی”۔

اللہ اللہ سبحان اللہ۔ ماں کی محبت میں یہ سب صعوبتیں برداشت کرنے والا عظیم انسان کسی عظیم ماں کا لختِ جگر ہی ہوسکتا ہے۔

نوٹ: مذکورہ بالا تعارف ایک اجمالی خاکہ ہے اور اس کا ماخذ حضرت کی ڈائری، کچھ تحاریر اور زیادہ تر نجی محافل میں ہونے والی گفتگو ہے۔ ویب سائٹ کی لانچنگ کے سلسلہ میں ہم فی الحال یہی ترتیب دے پائے ہیں، حضرت کی مکمل بائیو گرافی، سوانح حیات ، ان کی زندگی میں آنے والے تمام نشیب و فراز ان کی زبان اور قلم سے جو ہم تاحال حاصل کر پائے وہ بھی جلد اسی ویب سائٹ پر شائع ہوں گے۔

راہِ وفا و صفا کے اس سفر میں ہمیں اپنے شیخ و استاذ کی معیت پر فخر ہے، وہ جوان صوفی جو ہمارے لیے پیر و مرشد بھی ہے لیکن اب تک کی زندگی میں اس نے ہمارے ساتھ مریدوں والا “سلوک ” نہیں کیا بلکہ ہم نے سفر و حضرت، جلوت و خلوت ، کاروبار ہو یا دینی مجالس۔۔۔ وہ ہمارے لیے ظاہری و باطنی اعتبار سے ایک سادہ اور غریب پرور “مسلمان بھائی” ہے۔   ان کی مجالس میں شریک ہونے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے ہاں اس قدر بے تکلفی ہے کہ لوگ انہیں آج بھی “افتخار بھائی” کہہ کر بلا لیتے ہیں۔ اللہ ہمارے محسن و مربی کو سلامتی و عافیت عطا کرے۔

آخر میں ہم سب اپنے ان تمام دوستوں کے شکرگزار ہیں جن کے تعاون سے اب تک ہم دنیا کے تین درجن سے زائد ملکوں میں اپنی آواز پہنچا چکے ہیں، جن کے تعاون سے محبت کا پیغام عام ہو رہا ہے۔ اللہ تعالٰی آپ سب کی حاجات پوری فرمائے اور جیسے شیخ دعا فرماتے ہیں کہ “اللہ آپ سب کو ایمان و صحت کی سلامتی عطا فرمائے”۔ 

آستانِ رضویہ کے خدام (سوشل میڈیا و بین الاقوامی رابطہ ٹیم)

حامد علی قادری 

محمد کاشف سلیم قادری

عمر عبد الکریم قادری

عمر دراز قادری 

ساجد علی ٹھاکور نوری

عمران ابراہیم ساونت

عمران عبد اللہ  بیرگدار 

آدم بدر الدین

السلام علیکم! ہماری ویب سائٹ ابھی انگریزی زبان میں موجود نہیں۔