تعلیمِ نسواں اور ہمارے غیر ذمہ دار علماء

از؛ افتخار الحسن رضوی

قرآن و سنت کی من چاہی تشریحات کا سلسلہ طویل و پیچیدہ ہے۔ جنوبی ایشائی مفسرین و فقہاء نے علاقائی معاشرتی اثرات و رسوم کے قبول و عدم قبول کے چکر میں دین فطرت کے متعدد احکام کو یکسر نیا رنگ دیا ہے۔ مثلاً ابھی تک سخت گیر لہجہ رکھنےوالے متشدد مذہبی گھرانوں میں لڑکیوں کی تعلیم ایک متنازعہ معاملہ ہے۔ دیوبندی فکر سے متاثر (بعض) پاکستانی پٹھان خاندان اور آج سے بیس برس پرانے طالبان کے نظامِ حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم ممنوع تھی۔ جب کہ بریلوی مکتب فکر جو بالعموم شخصیات کے تابع ہے اور بالخصوص امام احمد رضا علیہ الرحمہ سے منسوب ہے، ان کے پاس فتاوٰی رضویہ کا حوالہ موجود ہے جس میں امام احمد رضا لکھتے ہیں؛
ـ عورتوں کو لکھنا شرعا ممنوع و سنت نصار ی و فاتح ہزاراں فتنہ اور مستان سرشار کے ہاتھ میں تلوار دینا ہے، جس کے مفاسد شدید ہ پر تجارب عدیدہ شاہد عدل ہیں ۔ متعدد حدیثیں اس سے ممانعت میں وارد ہیں ، جن میں بعض کی سند عند التحقیق خود قوی ہےـ۔

امام علیہ الرحمہ کا یہ قول فتاوٰی رضویہ کے علاوہ ـ جامع الاحادیث اور دیگر کئی بریلوی علماء کی تصانیف میں موجود ہے۔ ایک رضوی ہونے کے باوجود مجھے اپنے امام کے اس قول سے ہرگز اتفاق نہیں ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے مذہبی اکابرین کسی بھی ٹیکنالوجی کا پہلے انکار کرتے، اس کی حرمت پر کلام کرتے اور ناجائز قرار دیتے ہیں تاہم چند برسوں بعد اسی حرام کے برانڈ ایمبیسڈر بن جاتے ہیں۔ سپیکر میں اذان ، فوٹو گرافی، ٹی وی چینلز، مسجد میں اسے سی لگانے سے لے کر جدید سائنسی فقہی مسائل جن میں فون پر نکاح، IVF ، انتقالِ خون، فاریکس اور آن لائن خرید و فروخت جیسے مسائل میں ہمارے علماء نے شدید ہچکولے کھاتے ہوئے تضادات سے بھرپور کلام کیا ہے۔

تشدد پسند اور شخصی غلامی کے شکار قارئین کے پاس یہ جواب ہو سکتا ہے کہ آج سے ایک صدی قبل لڑکیوں کی تعلیم کے لیے حالات سازگار نہ تھے، اس لیے ایسے فتوے دیے گئے۔ تو کیا آج کا ہندوستان ایک صدی پرانے ہندوستان سے زیادہ محفوظ ہے؟ کیا موجودہ پاکستان ۱۹۴۷ سے زیادہ پر امن ہے؟ چلتی ٹرینوں میں زنا بالجبر، پارکوں میں جنسی درندگی، مدارس و جامعات میں لواطت و ہراسگی کے درجنوں واقعات روزانہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ہند و پاک کی فارمیسیز پر روزانہ ملینز کے حساب سے مانع حامل ادویات و اشیاء کی فروخت ہوتی ہے۔ امراضِ نسواں کی ماہر ڈاکٹرز کے پاس روزانہ لاکھوں خواتین اسقاطِ حمل کے لیے آتی ہیں۔ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کے واقعات میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ کورٹ میرج کے لیے باقاعدہ الگ عدالتیں اور اس کام میں معاونت فراہم کرنے کے لیے خاص وکلاء تیار ہو چکے ہیں۔ domestic violation اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اقوام متحدہ و مغربی ممالک کی شدید تنقید کے بعد برصغیر کے عدالتی و انتظامی اداروں میں سپیشل ایکٹ بنائے جا چکے ہیں۔ ہم جنس پرستی خطر ناک حد تک بڑھ چکی ہے اور ہندوستان میں اسے سرکاری اجازت دلوانے کے لیے بھرپور کوشش ہو رہی ہے۔

ان سب حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے سوچیے کہ خواتین کے لیے تعلیم ایک صدی قبل زیادہ آسان تھی یا موجودہ پر فتن دور میں آسان ہے۔
علماء دین اور فقہاء دینی مسائل کی توضیح و تشریح کرتے وقت خود کو مسلمانی کی مسند پر رکھیں، فتوٰی صادر کرتے وقت دیوبندی، بریلوی، ہندوستانی و پاکستانی حدود سے باہر نکلیں۔ اپنے فتوے کے ماخذ و مراجع اور حوالے لیتے وقت بہارِ شریعت اور بہشتی زیور سے شروع نہ کریں بلکہ کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ ﷺ سے شروع کیا کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ عرب علماء کی تحقیقات بھی پڑھیں۔ ممکنہ طور پر مسائل کی سائنسی و سیاسی نوعیت اور معاشرے پر اس کے اثرات کو بھی پیش نظر رکھیں۔ بد قسمتی اور افسوس کہ برصغیر کا موجودہ اسلام ـ قید میں ہےجس پر شخصیات نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، یہاں اسلام کم ہے اور شخصی و علاقائی اثرات زیادہ ہیں۔ یہ شخصیات کی پوجا کا انجام ہے کہ اس وقت ہند و پاک کے مسلمان تقسیم ہیں۔ اس تقسیم کے ذمہ دار وہ علماء ہیں جو پچاس سال تک ایک گروہ کی مخالفت میں گلے پھاڑتے ہیں اور پھر بڑھاپے میں انہیں اعداء کو گلے لگا لیتے ہیں اور نتیجتاً عوام دین سے مزید متنفر ہو جاتے ہیں۔
جس طرح آپ نے فوٹو گرافی، ٹی وی چینل، سپیکر میں اذان و جماعت سمیت بہت کچھ حلال کر لیا ہے، ویسے ہی لڑکیوں کو اعلٰی تعلیم دینا شروع کر دیں۔ آپ کو اپنی تربیت اور اولاد کے اچھے ہونے کا پورا یقین ہونا چاہیے۔ انہیں حیا سکھانے کا بہترین وقت ان کا بچپن اور گھریلو ماحول ہے۔ اگر آپ بیس برس پرانے اور ۲۰۲۱ کے طالبان کے تعلیمی نظریات اور معاشرتی تبدیلیوں سے کچھ نہیں سیکھتے تو تاریخ آپ کو عرب کے بدوءں سے بد تر جانےگی۔
کتبہ: افتخار الحسن رضوی
۲۰ محرم الحرام ۱۴۴۳۔ ۲۹ اگست ۲۰۲۱