اپنی ماں یعنی زبان کی حفاظت کیجیے

از: افتخار الحسن رضوی
سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اغیار کے سب سے بڑے حملے اسلامی تعلیمات، کلچر اور تمدن پر ہوئے۔ 1922 میں تمام غیر ملکی افواج ترکی سے نکل گئیں، اس کے فوری بعد اغیار کے آلہ کار مصطفٰی کمال پاشا نے ترکی زبان کا رسم الخط تبدیل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ ترکی زبان کا رسم الخط فارسی ، عربی اور اردو جیسا ہی تھا۔ میزبانِ رسول سیدنا ابو ایوب انصاری سمیت اسطنبول میں آرام فرما درجنوں اصحاب رسول، اولیائے کاملین اور مولائے روم رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مزارات پر آج بھی اصل ترک زبان میں لکھے گئے اشعار موجود ہیں۔ اسطنبول شہر میں کئے ایسے خطاط اور مترجم موجود ہیں جو “عثمانی ترکش” کے ماہر ہیں۔ پاشا نے عربی زبان پر پابندی لگائی، رسم الخط رومن کر دیا، قرآن کی عربی عبارت ممنوع قرار دی گئی، دینی کتب بھی رومن میں تبدیل کر دی گئیں اور یوں مذہبی کلچر کا خاتمہ آسان ہو گیا۔ قرآن و سنت کی تعلیمات صد فیصد عربی، فارسی ، عثمانی ترکش اور اردو میں ہی موجود ہوا کرتی تھیں، رومن میں تبدیل کرنے کے بعد لوگوں کے لیے دین سمجھنا مشکل ہو گیا کیونکہ رومن میں دینی مواد موجود ہی نہ تھا۔
زیر نظر تصویر سابق ملائیشین وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد صاحب کی آبائی ریاست اور انتخابی حلقے “کیدہ” (kedah) میں موجود ایک مسجد کی ہے۔ 2017 میں ڈاکٹر مہاتیر کے صاحبزادے مُخریز کی دعوت پر ایک سیمینار میں شرکت کے لیے جانا ہوا۔ نماز مغرب کے وقت ہم اس مسجد میں داخل ہوئے۔ بہت پر سکون جگہ تھی، دیسی ماحول تھا اور مسجد کے کھلے صحن میں نماز ادا کی گئی۔ یہاں کی اکثریت تامل مسلمانوں اور تھائی بدھ لوگوں پر مبنی ہے۔ نماز کے بعد اس تختی پر نظر پڑھی تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہ رسم الخط عربی، فارسی اور اردو سے قریب ہے۔ اس زبان کا نام “جاوا” ہے ۔ پرانے ملائیشین مسلمان اس زبان سے کچھ کچھ واقف ہیں تاہم نئی نسل اس کے حروف تہجی سے بھی واقف نہیں۔ داستان کچھ یوں ہے کہ ملائیشیا میں مجموعی طور پر تقریبا بائیس فیصد چینی قوم آباد ہو چکی ہے۔ پنانگ شہر مکمل طور پر چینی نسل کے لوگوں کے قبضے میں ہے۔ کوالالمپور میں چالیس فیصد چینی ہیں۔ شہر کے بیچ ایک پہاڑی نما خوبصورت جگہ پر چینیوں کا بڑا قبرستان موجود ہے۔ پارلیمان میں چینی نمائندے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ تامل، تھائی اور مشرق بعید کے دیگر چھوٹے جزیروں سے بھی غیر مسلم یہاں آ کر آباد ہو گئے۔ ان تمام اقوام نے مل کر “جاوا” زبان کو نئی رومن شکل دے ڈالی اور یوں ملائیشیا سے عربی، فارسی اور اردو سے مطابقت، مفاہمت اور مماثلت رکھنے والی جاوا زبان کا خاتمہ ہو گیا۔
اب آپ ملکِ پاکستان کے احوال پر غور کریں۔ جب سے پرائیویٹ میڈیا چینلز اور موبائل فون کمپنیز کی بھرمار ہوئی ہے، اردو زبان خطرے میں ہے۔ اردو اخبار اور چینلز پر خبروں کی نشر و اشاعت میں اینکرز کی زبان، لباس اور و ضع قطع ہرگز پاکستانی ہوتی ہے نہ ہی اردو سے مطابقت۔ موبائل فون کمپنیز اپنی تمام تر مارکیٹنگ اور پروموشنز رومن اردو میں کرتی ہیں۔ اسی کی نحوست ہے کہ گزشتہ بیس برسوں میں رومن اردو کی بھرمار ہو گئی ہے اور اب ہماری قوم میسج اور چیٹ میں اردو کی بورڈ کی جگہ رومن کی بورڈ استعمال کرتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ android & app store پر موجود کی بورڈز میں اردو گم کی جانے لگی ہے اور ایسے کی بورڈز متعارف کروائے گئے ہیں جن میں رومن اردو کو ترجیح دی گئی ہے۔ ہمارا عدالتی، انتظامی، عسکری اور پارلیمانی نظام شروع سے انگریزی کی جکڑ میں تھا، رہتی سہتی کسر اس میڈیا نے نے نکال دی ہے۔
یاد رکھیے، اگر رومن اردو بند نہ کی گئی تو ہماری قوم قرآن بھی نہیں پڑھ سکے گی۔ پاکستانی لوگ آسانی سے عربی صرف اس لیے پڑھ لیتے ہیں کہ اردو رسم الخط اس سے ملتا جلتا ہے۔ اردو کی برکت سے ہم قرآن، حدیث، فقہ اور اسلامی تاریخ سے واقف ہیں۔ ہمیں یہ عزم مصمم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم ہر حال میں اپنی زبان بچائیں گے۔ میں انگریزی پر عبور رکھنے کے باوجود صرف اردو کی خدمت کے پیش نظر اردو میں لکھتا ہوں اور دیگر لکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔ حالانکہ میری دفتری، کاروباری اور عام زندگی کا بڑا حصہ انگریزی زبان ہی سے وابستہ ہے۔ اس سے پہلے کہ ہماری اردو کا ترکش اور “جاوا” والا حال ہو جائے، اسے بچا لیجیے۔

کتبہ: افتخار الحسن رضوی
4 صفر المظفر، 1443 | 11 ستمبر 2021

Save you language