صدقات لیتے دیتے وقت یہ تعلیمات پیشِ نظر رکھیں

از: افتخار الحسن رضوی

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا یعنی بھیک مانگی۔ آپ  ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟ اس نے  عرض کیا، کیوں نہیں ایک کمبل ہے جس کا کچھ حصہ ہم اوڑھتے اور کچھ حصہ بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس سے پانی پیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دونوں چیزیں لے آؤ۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ دونوں چیزیں لے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو اپنے دست مبارک میں لے کر فرمایا: ان دونوں کو کون خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں انہیں ایک درہم میں لیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر دو یا تین مرتبہ فرمایا کہ ایک درہم سے کون زیادہ دیتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا کہ میں ان دونوں کو دو درہم میں لیتا ہوں۔ آپ نے دونوں چیزیں اسے دے دیں اور دو درہم لے لیے۔ وہ دونوں انصاری کو دے کر فرمایا کہ ان میں سے ایک کا اناج خرید کر اپنے گھر والوں کو دے دو اور دوسرے درہم کی کلہاڑی لاکر میرے پاس لے آؤ۔ جب وہ لے آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں اپنے دست مبارک سے دستہ ڈالا، پھر اس سے فرمایا کہ جاؤ لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندرہ روز میں تمہیں نہ دیکھوں۔ وہ آدمی گیا، لکڑیاں کاٹتا اور بیچتا رہا پھر جب وہ حاضرِ بارگاہ ہوا تو اس کے پاس دس درہم تھے۔ بعض کا کپڑا اور بعض کا اناج خرید لیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ روزِ قیامت تمہارے چہرے پر سوال کرنے کا داغ ہو کیونکہ تین آدمیوں کے سوا دست سوال پھیلانا درست نہیں ہے:

لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ أَوْ لِذِي دَمٍ مُوجِعٍ.

ایسا شخص جسے فقروفاقہ خاک نشین کر دے، جو شدید قرض میں گھر گیا ہو اور وہ جو مجبور کردینے والے خون بہا میں پھنس گیا ہو۔

أبي داود، السنن، باب کتاب الزکاة، ما تجوز فیه المسألة، 2: 120، رقم: 1641، بیروت: دار الفکر

اس روایت کے مطالعہ کے بعد صدقہ مانگنے والے اور صدقہ دینے والے ، عطیات و صدقات کا میرٹ سمجھ لیں کہ کون مستحق ہے اور ہاتھ پھیلانے سے پہلے اپنے اندر موجود صلاحیات کو بروئے کار لانا کس قدر ضروری ہے۔  ائمہ مساجد ہوں، مشائخ ہوں یا پھر دینی خدمات پر مامور افراد، یہ میرٹ سب کے لیے ہے۔ لہٰذا نفس کے دھوکے سے بچیں اور صدقات مستحقین تک پہنچنے دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ روز قیامت ہمارا ماتھا  ہمارے خلاف گواہی دے رہا ہو۔

اس کے ساتھ ساتھ صدقات دینے والوں سے گزارش ہے  کہ مستحقین تلاش کریں، فی زمانہ مستحق تلاش کرنا مشکل امر ہے۔ سرِ راہ، چوک اور چوراہے پر مانگنے والے  پیشہ ور بھکاریوں کو صدقہ دینا نہ صرف ایک برا عمل ہے بلکہ یہ ایک برائی کے پھیلاؤ میں معاونت ہے۔ جیلوں میں کئی کئی سالوں سے قید لوگوں کو  نجات دلوائیں، بیماروں  کا علاج کروائیں، دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کو کتب و طعام فراہم کریں یا  کسی کو مناسب کاروبار کروا دیں۔

ایک اور مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیک مانگنے کی ممانعت ان الفاظ میں کی ہے:

اوپر والا ہاتھ (دینے والا) نیچے والے ہاتھ (لینے والے)سے بہتر ہے اور (خرچ کرنے کی) ابتدا ان لوگوں سے کرو جن کی کفالت تمہارے ذمّے ہے۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو تونگری کے بعد (یعنی اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد) ہو اور جو سوال سے بچنا چاہے اللہ اسے بچا لیتا ہے اور جو لوگوں سے بے نیازی اختیار کرے اللہ اسے بےنیاز کر دیتا ہے۔

بخاری، الصحیح، کتاب الزكاة، باب لا صدقة الا عن ظهر غنى، رقم الحدیث: 1361، 2: 518