انسان کی روح نکلنے اور وقت نزع کے حالات

انسان کی روح نکلنے اور وقت نزع کے حالات


(علامہ افتخار الحسن رضوی)

روح نکلنے اور وقت نزع سے متعلق کثیر روایات کتب حدیث میں مذکور ہیں۔   اس کیفیت کے سمجھنے کو مندرجہ ذیل دو روایات کافی ہیں۔ پہلی روایت جو کہ سیدنا جابر بن زید رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے، اس میں ایک مومن صالح کی روح نکلنے اور اس کی کامیاب زندگی کے کامیاب خاتمے کی علامات موجود ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے؛

جب حضرتِ سیِّدُنا جابر بن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کا وقت ہو اتو ان سے پوچھا گیا :” کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کسی چیز کی خواہش ہے؟” ارشادفرمایا:” حضرتِ سیِّدُناامام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھناچاہتاہوں ۔’

حضرتِ سیِّدُنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :اے جابر ! رسول اللہ ﷺکافرمان ہے :

” مومن اللہ عزوجل کی طرف سے کسی بھلائی پر ہوتاہے، اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اللہ عزوجل اسے قبول فرماتاہے اور اگر عذرپیش کرتا ہے تو اس کا عذر قبول فرماتاہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہ مومن روح نکلنے سے پہلے اپنے دل میں ٹھنڈک محسو س کرتاہے ۔”

یہ سن کر حضرتِ سیِّدُنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :” اللہ اکبر ! بے شک میں اپنے دل میں ٹھنڈک محسوس کررہا ہوں۔” پھر دعا کی:” اے اللہ عزوجل! بے شک میں تیرے ثواب کی طمع رکھتاہوں، لہذا! تو میرے گمان کو سچ کردے اور میرے خوف اور گھبراہٹ کو دو ر فرمادے ۔”پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا اور انتقال فرماگئے ۔”

(حلیۃ الاولیاء، جابر بن عبد زید،رقم۳۳۴۴،ج۳،ص ۱۰۵،بدون فبلغ ذالک..الخ)

دوسری روایت جو کہ سیدنا براء ابن عازب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، اس میں مومن و کافر دونوں کی زندگی کے اختتامی لمحات کا منظر موجود ہے۔ ملک الموت کی آمد ، روح نکالنے جانے کے منظر ، سختی و شدت اور انعام و اکرام کا بھی مفصل ذکر ہے، ملاحظہ فرمائیے؛

سیدنا براءابن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں گئے قبر پر پہنچے قبر ابھی تیار نہ تھی حضورﷺ بیٹھ گئے ہم آپ کے آس پاس ایسے بیٹھ گئے کہ ہمارے سروں پر پرندے ہیں حضور کے ہاتھ میں چھڑی تھی جس سے آپ زمین کریدنے لگے پھر اپنا سر اٹھایا دو یا تین بارفرمایا کہ عذاب قبر سے اﷲ کی پناہ مانگو پھر فرمایا کہ بندہ مؤمن جب دنیا سے روانہ ہوکر آخرت کی طرف جانے لگتا ہے تو اس پر آسمان سے سفید چہرے والے فرشتے اترتے ہیں گویا ان کے چہرے سورج ہیں جن کے ساتھ جنت کے کفنوں سے کفن اور وہاں کی خوشبو ہوتی ہے حتی کہ میت کی تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت علیہ السلام آتے ہیں اس کے سر کے پاس بیٹھ کر کہتے ہیں، اے پاک روح اﷲ کی بخشش اور رضا کی طرف چل تو وہ نکلتی ہے ایسی بہتی ہوئی جیسے مشک سے قطرہ، ملک الموت اسے لے لیتے ہیں جب لیتے ہیں تو فرشتے ان کے ہاتھ میں پل بھرنہیں چھوڑتے حتی کہ اسے لے لیتے ہیں اس کو کفن اور خوشبو میں ڈال دیتے ہیں اس میت سے ایسی نفیس خوشبونکلتی ہے جیسے روئے زمین پر بہترین مشک سے، فرمایا اسے لےکر چڑھتے ہیں تو فرشتوں کی کسی جماعت پرنہیں گزرتے مگر وہ کہتے ہیں کہ یہ کیا ہی نفیس خوشبو ہے یہ کہتے ہیں کہ یہ فلاں ابن فلاں ہے اس کا وہ اعلیٰ نام لےکر جو زمین میں لیا جاتاتھا حتی کہ اسے لےکر دنیاوی آسمان پرپہنچتے ہیں تو اس کے لیے کھلواتے ہیں تو کھول دیاجاتاہے اسے ہر آسمان کے فرشتے دوسرے آسمان پرپہنچانے جاتے ہیں حتی کہ ساتویں آسماں تک پہنچادیتے ہیں، رب فرماتا ہے کہ میرے بندے کی کتاب علیین میں لکھو، اور اسے زمین کی طرف کردو کیونکہ میں نے انہیں زمین سے ہی پیدا کیا وہاں ہی لوٹاؤں گا وہاں ہی سے دوبارہ نکالوں گا فرمایا اس کی روح جسم میں واپس کی جاتی ہے،پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ رب تیرا کون وہ کہتاہے رب میرا اﷲ ہے وہ کہتے ہیں دین تیرا کیا وہ کہتا ہے دین میرا اسلام، کہتے ہیں یہ صاحب کون ہیں جو تم میں بھیجے گئے وہ کہتاہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ کہتے ہیں تجھے کیسے معلوم ہوا یہ کہتا ہے میں نے اﷲ کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا اس کی تصدیق کی ، تو آسمان سے پکارنے والاپکارتاہے کہ میرا بندہ سچا ہے، اس کے لیے جنت کا فرش بچھاؤ جنتی لباس پہناؤ اور جنت کی طرف دروازہ کھول دو فرمایا تب اس تک جنت کی راحت و خوشبو آتی ہے،تاحدنگاہ اس کی قبر میں فراخی کی جاتی ہے، فرمایا کہ اس کے پاس ایک خوبصورت اچھے کپڑوں اچھی خوشبو والاشخص آتا ہے کہتاہے اس سے خوش ہو جو تجھے مسرور کرے گی یہ تیرا وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا،یہ کہتا ہے تو کون ہے تیرا چہرہ بھلائی لاتاہے، وہ کہتاہے میں تیرا نیک عمل ہوں،تب بندہ کہتا ہے یارب قیامت قائم کر یا رب قیامت قائم کر تاکہ میں اپنے گھر بار اور مال میں پہنچوں فرمایا کہ بندہ کافر جب دنیا کے خاتمے اور آخرت کی آمد میں ہوتا ہے توا س کی طرف آسمان سے سیاہ چہرے والے فرشتے اترتے ہیں جن کے ساتھ ٹاٹ ہوتے ہیں ، اس کی حدنگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں،پھر ملک الموت آتےہیں اس کے سر کے پاس بیٹھتے ہیں کہتے ہیں اے خبیث جان رب کی ناراضی کی طرف نکل فرمایا کہ جان اس کے جسم میں چھپتی پھرتی ہے وہ اسے ایسے کھینچتے ہیں جیسے گرم سیخ بھیگی اون سے کھینچی جاتی ہے پھر اسے لے لیتےہیں جب لیتے ہیں تو دوسرے فرشتے وہ جان ملک الموت کے ہاتھ میں پلک جھپکتے تک نہیں چھوڑتےحتی کہ اسے ان ٹاٹوں میں ڈال لیتے ہیں اور اس سے روئے زمین کے بدترین مردار کی سی بدبو نکلتی ہے اسے لےکر چڑھ جاتے ہیں، فرشتوں کی جس جماعت پربھی گزرتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کون خبیث جان ہے وہ اس کے دنیاوی بدترین ناموں سے جس سے موسوم کیاجاتا تھا نام لےکر کہتے ہیں کہ فلاں فلاں کا بیٹا یہاں تک کہ اسے لےکر آسمان دنیا تک آتے ہیں، کھلوایاجاتا ہے تو اس کے لیے کھولانہیں جاتا پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی نہ ان کے لیے آسمان کے دروازے کھلیں اور نہ وہ جنت میں جائیں حتی کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے، پھر رب تعالٰی فرماتا ہے کہ اس کی کتاب نچلی زمین کپے سجّین میں لکھو پھر ان کی جاں پٹخ دی جاتی ہے پھر حضور نے یہ تلاوت کی کہ جس نے اﷲ سے شرک کیا گویا وہ آسمان سے گر گیا جسے پرندے اچکتے ہیں یا اسے دور جگہ میں ہوا پھینْکتی ہے، پھر روح جسم میں لوٹائی جاتی ہے اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں کہتے ہیں تیرا رب کون ہے وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا پھر کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا پھر کہتے ہیں یہ کون صاحب ہیں جو تم میں بھیجے گئے وہ کہتے ہیں ہائے ہائے میں نہیں جانتا، تب آسمان سے پکارنے والا پکارتا ہے یہ جھوٹا ہے اس کے لیے آگ کا بستربچھاؤ اور آگ کی طرف دروازہ کھولو تب اس تک دوزخ کی گرمی اور وہاں کی لو آتی ہے اس پر قبر اتنی تنگ کی جاتی ہے کہ ا س کی پسلیاں اِدھر اُدھر ہوجاتی ہیں اس کے پاس ایک بدشکل برے لباس والا بدبو دار آدمی آتاہےکہتا ہے اس کی خبرلے جو تجھے غمگین کرے گی یہی وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ تھا مردہ کہتا ہے کہ تو ہے کون کہ تیرا چہرہ شر(ڈر)لاتا ہے وہ کہتا ہے میں تیرے برے عمل ہوں تب یہ کہتا ہے الٰہی قیامت نہ قائم کر،اور ایک روایت میں اس کی مثل ہے اس میں اتنی زیادتی ہے کہ جب مؤمن کی جان نکلتی ہے تو آسمان و زمین کے درمیان کے سارے فرشتے اس پر دعا کرتے ہیں اس کے لیے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں ہر درازے والے یہی دعاکرتے ہیں کہ اس کی روح ان کی طرف سے چڑھے، اور کافر کی جان اس کی رگوں کے ساتھ نکالی جاتی ہے اس پر آسمان زمین کے درمیان والے فرشتے اور آسمان کے سارے فرشتے لعنت کرتے ہیں آسمان کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، ہر دروازے والے یہی دعا کرتے ہیں کہ الٰہی اس کی روح ان کی طرف سے نہ چڑھے۔

(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد دوم ، حدیث 854)

اللہ تعالٰی ہم سب کا ایمان پر خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آمین

اپنی رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *