فقہی مسائل اور سائنسی تحقیقات کی اہمیت و ضرورت

فقہی مسائل اور سائنسی تحقیقات کی اہمیت و ضرورت


(علامہ افتخار الحسن رضوی)

اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے   علم کی اشاعت اور تبلیغ پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ اسلام اپنے دامن میں اس قدر وسعت رکھتا ہے کہ ہر وہ علم و فن جو انسانی ضرورت کے مطابق ہو اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ فقہِ اسلامی بنیادی طور پر ٌاسلامی قوانینٌ کا مجموعہ ہے۔ قرآن و سنت میں موجود ایسے احکام جو صراحت کے ساتھ وارد ہوں ان پر کوئی دو رائے نہیں لیکن لا تعداد ایسے مسائل ہیں جن پر بعد کی تحقیقات کی روشنی   میں انہیں قبول یا رد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ذیل میں چند ایسی مثالیں پیش خدمت ہیں؛

۱۔   In Vitro Fertilization (IVF)   کے ذریعے بچے کی پیدائش ناجائز سمجھی جاتی تھی، بعد میں میڈٰکل ڈاکٹرز کی تحقیقات پر یقین رکھتے ہوئے اسے اس صورت میں جائز تسلیم کر لیا گیا کہ مرد کے مادہ منویہ کو نکال کر عورت کے رحم میں منتقل کرنے تک کسی تیسرے کی مداخلت نہ ہو تو یہ عمل جائز ہے۔ جدید فقہی مسائل میں یہ حکم خالص سائنسی تحقیقات پر مبنی ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو کسی بھی مفتی سے پوچھ لیں کہ وہ اس عمل کے جواز پر کیا دلیل رکھتے ہیں اور جواز کی بنیاد کیا ہے؟

۲۔ امام اعظم سیدنا ابو حنیفہ سے لے کر دیگر تینوں فقہی ائمہ رضوان اللہ علیہم تک کسی کے دور میں انتقالِ خون   کا کوئی کیس نظر نہیں آتا۔ دور جدید میں بعض صورتوں میں انتقال خون کی اجازت ہے۔   فقہی حکم تو یہ بھی ہے کہ ایک ناقص، مضر اور infectious خون کا انتقال جائز نہیں کیونکہ اس سے خون لینے والا انسان موت کے مزید قریب ہو جائے گا۔ اب اس خون کے مضر صحت، ناقص، جراثیم سے آلودہ اور infectious ہونے کا فیصلہ کون کرے گا؟ یقینا ایک pathologistہی کرے گا کیونکہ مفتی صاحبان کے پاس مسجد، مدرسہ یا دار الافتا میں ہرگز ایسی لیبارٹریز موجود نہیں ہوتیں۔ یہاں بھی سائنس ہی پر یقین کیا جائے گا۔

۳۔ Soft Tissues کے infection ہوں یا انسانی جلد کی پیوند کاری، انسانی جسمانی اعضا میں Silicone کا استعمال ہو یا Organ Transplant ان سب پر فیصلہ سناتے وقت مفتی صاحبان جنرل سرجن، Dermatologist اور حیاتیاتی خلیات کے ماہر ڈاکٹرز کی تحقیق پر ہی فیصلہ کر سکیں گے، ورنہ ایک مفتی کا یہ منصب ہی نہیں کہ وہ شکوک پر مبنی فتوٰی جاری کرے۔

۴۔   شراب حرام قطعی ہے۔ دور جدید میں الکوحل یا شراب کے مختلف استعمال ہر مسلمان کے گھر میں ہو رہے ہیں۔ (الا ماشا اللہ)۔  مثلا ہومیوپیتھک کی ۹۹ فیصد ادویات الکوحل پر مبنی ہیں۔ کھانسی، الرجی، خارش، Anxiety, Depression اور دیگر کئی امراض میں استعمال ہونے والی انگریزی ادویات یعنی ایلوپیتھک سو فیصد الکوحل پر مبنی ہوتی ہیں یا ان کا Base Composition & Combination ایسی ادویات پر   مبنی ہوتا ہے جو غنودگی یا sedation دیتا ہے۔ فقہِ اسلامی کے مطابق یہ ناجائز ہے۔ لیکن فقہا کرام نے ہیئت، ماہیت اور percentage کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی حلت و حرمت کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی ایسی تمام ادویات میں الکوحل کا اثر غالب نہیں ہوتا، یہ تھوڑی مقدار میں ہوتی ہے ، اس لیے اس کا استعمال جائز ہے۔ اب اس کی مقدار کی قلت یا کثرت کا فیصلہ کون کرے گا؟ یقینا ایک Pharmacistہی کرے گا کیونکہ مفتی صاحبان نے pharmacology نہیں پڑھی۔

۵۔   معروف دافع درد دوا Diclofenic Sodium and Diclofenic Potassium اس قدر عام دوائی ہے کہ ہر دوسرے انسان کو زندگی میں کئی بار اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ عام مسلمان اس سے واقف نہیں کہ یہ دوائی کیسے بنتی ہے۔ جنگلی درندہ ٌگدھٌ اس دوائی کی بنیاد ہے۔ میں نے خود روس کی فارمیسی میں اس کا معائنہ کیا ہے۔ علما نے اس کے استعمال کی اجازت اس لیے دی ہے کہ اس میں گدھ کے اجزا قلیل ہیں۔ اس کی قلت یا کثرت کا فیصلہ بھی سائنس ہی کرتی ہے۔

۶۔   الیکٹرانک ڈیوائسز میں قرآن کی تلاوت، Human Milk Bank، موبائل فون کمپنیوں کی Micro and Branchless Banking ، اسلامی بینکاری، forex, سٹایک ایکسچینج، مشینی ذبیحہ، رویت ہلال سمیت سینکڑوں ایسے مسائل ہیں جن کی حلت و حرمت کا فیصلہ کرنے کے لیے کسی نہ کسی صورت میں سائنس کی مدد لی جا رہی ہے۔

مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ ماضی قریب میں کچھ ایسے طبقات کا اثر رہا جو سائنسی تحقیقات سے دور دھکیلتے رہے لیکن پھر ایسا وقت بھی آیا کہ جن حقائق کا انکار کیا جاتا رہا، انہیں تسلیم بھی کیا گیا۔ مثال کے طور پر ٹیلی ویژن، سپیکر میں اذان و جماعت، فوٹو وغیرہ۔ ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری بعض لوگ آج بھی اس قدر شدت پسند ہیں کہ اس قدر آسان و نرم مسائل پر بھی حد درجہ گرجتے اور برستے ہیں۔ یہ رویہ کسی صورت بھی اسلام ومسلمین کے مفاد میں نہ تھا نہ ہو گا۔ شخصیات کے اختلاف کی آڑ میں مسائل کی بنیاد و حالت ہلا کر رکھ دی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسلام کے وسیع تر مفاد میں فیصلے ہونے چاہیں۔ قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر فقہی فیصلے کیے جائیں۔ اس میں سائنسی مدد بھی لی جائے۔ کوئی ایسی تحقیق جو   قرآن و سنت سے ٹکراتی ہو اسے تسلیم نہ کریں لیکن سائنس کو قرآن و سنت سے جد ابھی نہ کریں ورنہ ہم پتھر کے دور میں رہیں گے اور ہماری تنزلی کا یہ سفر مزید جاری رہے گا۔

اپنی رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *