(علامہ افتخار الحسن رضوی )
اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے انسانی زندگی سے متعلق ہر ہر پہلو پر رہنمائی کی ہے۔ ہر معاملہ پر قانون موجود ہے اور شریعت کے ماہر علماء نے اس پر مفصل شروحات و توضیحات لکھی ہیں۔ محبت کی شادی ہند و پاک کے معاشرے میں ایک طعنہ، عیب یا کم از کم نا پسندیدہ عمل ضرور رہا ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ لیکن دیکھیے کہ مصطفٰی جانِ رحمت ﷺ اور آپ کے اصحاب اس متعلق کیا رہنمائی فرماتے ہیں۔ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی تعلیمات یہ ہیں کہ اگر دو مرد و عورت ایک دوسرے کو پسند کرنے لگیں تو اسلامی، معاشرتی حدود و آداب کا خیال رکھتے ہوئے ان کا نکاح کر دیا جانا چاہیے کیونکہ ان کی مرضی کی مخالفت کرنے سے کبھی بھی سکون قائم نہیں ہو گا اور عین ممکن ہے اسی رویے و سلوک کی وجہ سے زنا عام ہونا شروع ہو جائے۔ امام ابنِ ماجہ علیہ الرحمہ روایت لائے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
“دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے “۔
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1847)
ہمارے معاشرے میں جب اس کا خلاف ہوتا ہے تو پھر لڑکی یا لڑکا جسمانی طور پر کسی اور کے نکاح میں ہوتے ہیں جب کہ قلبی و ذہنی اعتبار سے ان کی محبت، لگن اور تعلق کہیں اور ہوتا ہے۔ یوں ساری زندگی سلگ سلگ کر گزر جاتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں تو اسی نوعیت کا ایک ایسا کیس بھی موجود ہے جو موجودہ دور کے ہند و پاک معاشرے کی اصلاح کے لیے اکسیری نسخہ رکھتا ہے۔ خلیفہ اول، امیر المؤمنین سیدنا أبو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے شہزادے سیدنا عبد اللہ بن أبو بکر کی شادی سیدنا سعید بن زید کی بہن بی بی عاتکہ بنت زید سے ہوئی تھی۔ بی بی عاتکہ سرکارِ کریم ﷺ کی صحبت پا کر شرفِ صحابیت پر فائز تھیں۔ سیرت نگاروں نے انہیں بہت ذہین، خوبصورت اور عقل مند خاتون لکھا ہے۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ اپنی بیوی عاتکہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ غلامانِ رسول کا قافلہ جہاد پر روانہ ہوا، لیکن حضرت عبد اللہ اپنی بیوی کی محبت کی وجہ سے جہاد پر نہ گئے۔ اس بات پر اصدق الصادقین سیدنا أبو بکر صدیق کو بیٹے کی یہ حرکت سخت ناگوار گزری اور آپ کی بیوی کی ساتھ ایسی محبت جو راہِ خدا اور خدمتِ دین میں رکاوٹ بنے اس پر دکھ ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ تو وہ ہستی ہیں جو اپنی کل کائنات کو شاہِ کائنات ﷺ کے قدمین شریفین پر نچھاور کر نے کے بعد بھی یہ تمنا رکھتے تھے کہ
؎ کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فِدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
سیدنا أبو بکر صدیق نے عشقِ رسول ﷺ میں سخت اقدام اٹھاتے ہوئے اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ کو حکم دیا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو کیونکہ بیوی کی محبت میں مبتلا ہو کر تم دینِ اسلام کی خدمت سے پیچھے ہٹ گئے ہو، جہاد پر نہیں جاتے ہو اور یوں رسول اللہ ﷺ کی بجائے تمہارے دل میں بیوی کی محبت زیادہ ہے۔ حضرت ِ عبد اللہ نے پہلے تو طلاق نہ دی لیکن جب والد ماجد نے اصرار کیا تو آپ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔
طلاق دینے کے بعد حضرت عبد اللہ شدید غم میں رہتے اور ندامت کرتے کہ ایسی حسین و جمیل، عالمہ فاضلہ اور عظیم عورت مجھ سے بچھڑ گئی۔ حتٰی کہ وہ حضرت عاتکہ کے فراق میں دیوانہ وار اشعار کہنا شروع ہو گئے؛
؎یقولون طلقها و خیم مکانھا
مقیما تمنی النفس أحلام نائم
و إن فراقی اھل بیت جمیعھم
علی کرہ مني لإحدی العظائم
” ترجمہ: ” لوگ کہتے ہیں کہ تو اسے طلاق دے دے اور خود اس کی جگہ خواب دیکھنے والے کی طرح سہارا دیتا ہوں ۔ ایک عظمت والی خاتون کی خاطر گھر والوں سے جدائی مجھے ناگوار گزرتی ہے ۔”
حضرت عبد اللہ طلاق تو دے چکے تھے، مگر دل بے چین رہتا، ان کے انداز، اشعار اور اس ردِ عمل سے اس فکر کو تقویت ملتی ہے کہ سیدہ عاتکہ ایک نہایت پاکباز، صالحہ، عاقلہ اور بلند مرتبے والے خاتون تھیں۔ ایک بار تو رات کی تاریکی میں تڑپ اٹھے اور بی بی عاتکہ کی یاد میں یہ اشعار لکھ ڈالے؛
أعاتك لا أنساك ما ذر شارق
و ما ناح قمری الحمام المطوق
أعاتك قلبی کل یوم و لیلة
إلیك بما تخفی النفوس معلق
و لم أری مثلی طلق الیوم مثلھا
و لا مثلھا فی غیر جرم تطلق
لھا خلق جزل و رأي و منصب
و خلق سوی فی الحیاء و مصدق
” اے عاتکہ جب تک باد صبا چلتی ہے اور گلے میں پڑی گانی (ہار ) والی فاختہ نوحہ کناں ہے ، میں تجھے نہیں بھول سکتا ۔ اے عاتکہ! جب تک مسافروں کے قافلے کوچ کا ارادہ رکھتے ہوں اور آسمان پر ستارے روشن ہوں ، میں تجھے نہیں بھول سکتا ۔ اے عاتکہ! میرا دل ہر دن ہر رات تیری طرف معلق رہتا ہے ۔ میں نے آج تک اپنے جیسا کوئی نہیں دیکھا ، جس نے اس جیسی کو طلاق دی ہو اور نہ اسی جیسی بغیر جرم کے طلاق دی گئی ہو ۔ اس کی اچھی عادت اور عمدہ رائے اور اچھی سیرت تھی ۔ وہ سچ بولنے والی تھی ۔”
سبحان اللہ۔ آخری دو مصرعے کیا ہی برکات سے بھرپور کیفیات بتا رہے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کی نیک خصلتوں کی وجہ سے محبت کرتے تھے۔ اشعار میں کہیں پر ایسا ذکر نہیں جو عصرِ حاضر کے شہوانی و نفسانی خیالات کو ہوا دے۔ وہ ان کی اچھی عادات، عمدہ رائے اور سچائی کی وجہ سے محبت کرتے تھے۔
رات کے پچھلے پہر کائنات کے سب سے سچے انسان جناب أبو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تہجد کی ادائیگی کے لیے اٹھے تو جناب عبد اللہ یہی اشعار گنگنا رہے تھے۔ رقیق القلب باپ نے بیٹے کو یوں تڑپتے سلگتے اشعار کہتے ہوئے سنا تو بلا کر فرمایا، جاؤ عاتکہ سے رجوع کر لو۔ جناب عبد اللہ نے خوشی سے جھوم کر کہا “أبا جان آپ گواہ رہیے، میں نے عاتکہ سے رجوع کیا”۔
حضرت عبد اللہ کے مزید کئی اشعار ہیں جو انہوں نے اپنی بیوی کی یاد میں کہے تھے، جب اپنی بیوی کو رجوع کی خبر دینے گئے تو یہ اشعار گنگنا رہے تھے۔
أعاتك قد طلقت فی ریبة
و رجعت للأمر الذی ھو کائن
کذالك أمر اللہ غاد و رائح
علی الناس فیه ألفة و تباین
و ما زال قلبی للتفرق طائرا
و قلبی لما قد قرب اللہ ساکن
لیھنك أنی لا أری فیه سخطة
و أنك قد تمت علیك المحاسن
و أنك ممن زین اللہ وجھه
و لیس لوجه زانه اللہ شائن
” اے عاتکہ! تو طلاق دی گئی شک کی بنیاد پر اور تجھ سے رجوع کیا گیا ایک ایسے کام کے لیے جو لوگوں پر واقع ہونے والا ہے ۔ اس میں پیار بھی ہے اور جدائی بھی ۔ میرا دل جدائی میں ہمیشہ اڑتا ہے اور میرا دل جو اللہ نے قریب کیا ہے ٹھہر گیا ہے ۔ تیری نرم گوئی کی وجہ سے ۔ میں تجھ میں ناراضی کے آثار نہیں دیکھ پاتا ۔ تجھ پر حسن و جمال کا پرتو ہے ۔ تو ان لوگوں میں سے ہے جن کے معاملات اللہ نے سلجھا دیئے اور جن کو اللہ نے آراستہ و مزین کر دیا ، انہیں کوئی ذلیل کرنے والا نہیں ہے ۔”
قارئینِ کرام!
اگر محبت کی شادی کی بنیاد اللہ کی رضا، رسول اللہ ﷺ کی محبت و اطاعت اور دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت پر رکھ لی جائے، پھر اس محبت میں طہارت اور صفائی بھی انہی بنیادوں پر رکھ لی جائے تو یہ مولا تعالٰی کا بڑا انعام ہے۔ جسم کمزور پڑ جائے گا، حسن ختم ہو جائے گا، مال برباد ہو جائے گا لیکن ایسی محبت کبھی زوال پذیر نہیں ہوتی۔ نیتوں کی اصلاح کر لیجیے، اہداف واضح رکھیے اور بیوی یا شوہر کے انتخاب میں رب رسول کو نہ بھولیے گا۔ خدا تعالٰی صالحین کی محبت سلامت رکھے۔
افتخار الحسن رضوی
29 اپریل 2020
اپنی رائے دیں