معروف شاعر "المتنبی" کا تعارف

معروف شاعر "المتنبی" کا تعارف


(علامہ افتخار الحسن رضوی)

مدارسِ دینیہ میں پڑھائے جانے والی معروف کتاب “المتنبی” کے مصنف کا درست نام “ابوطیب احمد بن حسین بن حسن بن عبدالصمد الجُعفی الکندی الکوفی” ہے۔ اس کی پیدائش 303 ہجری بمطابق 915 عیسوی میں ہوئی۔  شہر کوفہ کے محلہ “کندہ” میں پیدا ہونے کی وجہ سے “الکندی” کہلایا اور قبیلے کے اعتبار سے “جعفی” تھا ۔ متنبی کہلانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ابوعباس احمد بن محمد خلکان نے تاریخ خلکان میں لکھا ہے؛

إنما قيل له المتنبي لأنه ادعى النبوة في بادية السماوة وتبعه خلق كثير من بني كلب وغيرهم. فخرج إليه لؤلؤ أمير حمص نائب الإخشيدية فأسره وتفرق أصحابه وحبسه طويلا. ثم استتابه وأطلقه. وقيل غير ذلك وهذا أصح. وقيل إنه قال أنا أول من تنبأ بالشعر”۔

یعنی اسے متنبی اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ اس نے بادیہ سماوہ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور بنو کلب وغیرہ میں سے بہت سے لوگوں نے اس کی پیروی کی۔ پھر اخشیدیہ کا نائب امیرِ حمص لؤلؤ اس کے مقابلے میں گیا تو اس نے متنبی او ر اس کے اصحاب کو گرفتار کر لیا اور انہیں لمبے زمانے تک قید رکھا۔ پھر اس سے توبہ کا مطالبہ کیا اور اسے رہا کر دیا۔ اس معاملے میں دیگر واقعات بھی بیان کیے جاتے ہیں مگر یہ زیادہ درست بات ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ متنبی کہتا تھا کہ میں پہلا شخص ہوں جس نے شعر سے دعویٰ نبوت کیا ہے۔

(ابن خلكان، وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، 1: 122، بيروت، لبنان: دار الثقافة)

دائرۃ المعارف نے اس کے متعلق لکھا ہے؛

“اسے متنبی اس لیے کہا گیا ہے کہ اس نے بادیہ سماوہ میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ اور بعض نے بیان کیا ہے کہ اس نے کہا میں پہلا شخص ہوں جس نے شعر سے دعویٰ نبوت کیا ہے۔ اور بنو کلب وغیرہ میں سے بہت سے لوگوں نے اس کی پیروی کی۔ تو اخشیدیہ کا نائب امیر حمص لؤ لؤ اس کے مقابلے میں گیا تو اس نے اسے او ر اس کے اصحاب کو گرفتار کر لیا اور لمبا زمانہ قید رکھا۔ پھر اس سے توبہ کا مطالبہ کیا اور اسے رہا کر دیا۔ پھر وہ 337ھ میں امیر سیف الدولہ بن حمدان کے پاس چلا گیا۔ پھر اس کو چھوڑ کر 346ھ میں مصر آ گیا اور کافور اخشیدی اور انو جوربن الاخشید کی مدح کی۔ اور وہ کافور کے سامنے کھڑا ہوتا اور اس کے پاؤں میں موزے ہوتے اور اس کی کمر میں تلواروں اور پیٹیوں سے لیس ہوتے۔ اور جب وہ اس سے راضی نہ ہوا تو اس نے اس کی ہجو کی اور عید قربان کی رات کو 350ھ میں اسے چھوڑ گیا۔ اور کافور نے اس کے پیچھے مختلف جہات میں اونٹ روانہ کیے مگر وہ نہ ملا۔ کافور نے اس سے اپنی عملداری کی حکومت کا وعدہ کیا تھا مگر جب اس نے اس کے اشعار میں اس کے بلند و بانگ دعوؤں اور اس کے فخر کو دیکھا تو وہ اس سے ڈر گیا اور اسے اس بارے میں ملامت کی گئی۔ تو اس نے کہا اے لوگو! جو محمد ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے کیا وہ کافور کے ساتھ مملکت کا دعویٰ نہ کرے گا؟ تمہارے لیے یہی کافی ہے”۔

تمام تک شکوک و شبہات اور اختلافات کے باجود دیکھیے کہ اس شخص کے کلام پر چالیس کے قریب شروحات لکھی گئی ہیں، اس کی کتب آج تک مدارس دینیہ کے علاوہ دنیا بھر کے کلیات و جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ شخص اپنے فن کی وجہ سے “خاتم الشعراء” کہلایا۔

المتنبی کی وفات کی داستان بھی دلچسپ ہے، سیف الدولہ کی ایک مجلس میں ہر شب کو علما حاضر ہوا کرتے تھے اور اس کی موجودگی میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ پس متنبی اور ابن خالویہ نحوی کے درمیان جھگڑا ہو گیا تو ابن خالویہ نے متنبی پر حملہ کر دیا اور اس کے چہرے پر وہ چابی مار کرسر کو زخمی کر دیا۔ وہ ناراض ہو کر مصر چلا گیا اور کافور کی مدح کی۔ پھر اسے چھوڑ کر اسے بلاد فارس کا قصد کیا اور عضدالدولہ بن بویہ دیلمی کی مدح کی تو اس نے بہت انعام دیا پھر 8 شعبان کو کوفہ آیا تو فاتک بن ابی الجہل اسدی اپنے کئی اصحاب کے ساتھ اسے ملا اور متنبی کے ساتھ بھی اپنے اصحاب کی ایک جماعت تھی۔ پس انہوں نے اس کے ساتھ جنگ کی تو متنبی اور اس کا بیٹا محمد اور اس کا غلام مفلح نعمانیہ کے نزدیک ایک جگہ پر جسے الصافیہ کہا جاتا ہے 28 رمضان 354 بمطابق 965 عیسوی قتل ہو گئے۔ یوں علم و ادب اور شعر و فن کا یہ امام دنیا سے جاتا رہا۔

اپنی رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *