قبلہ کی طرف پاؤں کرنا

قبلہ کی طرف پاؤں کرنا


سوال: قبلہ کی طرف پاؤں کرنا کیسا عمل ہے؟ اس کی ممانعت میں کتاب و سنت کی روشنی میں کیا ارشاد ہوا ہے؟

جواب: اس پر فقیر نے ایک مثال اسی وقت پیش کر دی تھی کہ   اگر آپ کے والد گرامی آپ کے سامنے موجود ہوں تو سر مجلس کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اپنے والد صاحب کے چہرہ کی جانب ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ جائیں، اور دیکھنے والے آپ کو روکیں، اس پر آپ دلائل طلب کریں کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت کریں کہ باپ کے طرف پاؤں یا ٹانگیں پھیلا کر بیٹھنا جائز نہیں؟

اسلام اداب سکھاتا ہے اور علما نے ادب کے جن قلعوں کا ذکر کیا ہے اس میں اہم ترین قلعہ ادب ہے۔ منکرین یا فسادی سوچ رکھنے والے ہمیشہ ہر بات پر ایسے ہی دلائل طلب کرتے ہیں، حالانکہ کچھ معا ملات کا تعلق انسانی تربیت، احترام اور باہمی ادب سے ہوتا ہے، جو قدرت نے ہر انسان کے ذہن میں ڈال دیا ہے، اس پر دلائل کی ہرگز حاجت نہیں ہوتی۔ تاہم معترضین کی تسلی کے لیے چند دلائل و اقوال پیش کرتا ہوں؛

سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ص نے فرمایا:جب تم قضاء حاجت کے لئے آؤ (بوقت قضائے حاجت) قبلہ کی طرف نہ منہ رو، اور نہ پشت کرو، لیکن مشرق کی طرف منہ کر لو،یا مغرب کی جانب

(بخاری شریف جلد اول صفحہ 57،مسلم شریف جلد اول صفحہ 130)

چند مزید فرامین ملاحظہ فرمائیں؛

کوئی بھی ہر گز قبلہ کی جانب منہ کر کے پیشاب نہ کرے ۔‘‘

معقل بن ابی معقل کی حدیث جس میں وہ بیان کرتے ہیں:’’رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ بول و براز کے وقت ہم قبلتین کی طرف منہ کریں۔‘‘
اس حدیث میں قبلتین سے مراد قبلہ اول بیر المقدس اور کعبہ کی طرف ہو جاتی اس طرح خانہ کعبہ کی جانب استدبا ر ہو جائے گا۔ بعض نے فرمایا کہ قبلہ اول کے احترام کے پیش نظر اس وقت بھی قضائے حاجت کے وقت استقبال و استد بار نہ کرنا چاہئیے۔۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں ذکر فرماتے ہیں:’’ہمیں سرکار ﷺ نے بول و براز کے وقت استقبال قبلہ کرنے سے منع فرما یا ہے ۔‘‘

حدیث :حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ میں تمہارے لئے والد کے قائم مقام ہوں۔تمہیں تعلیم دیتا ہوں ،جب تم میں سے کوئی بول و براز کے لئے آئے تو وہ قبلہ کی طرف منہ نہ کر اور نہ ہی اس کی طرف پشت کرے۔‘‘
مذکورہ تمام روایات عمدۃ القاری میں موجود ہیں۔

حضرت انس سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص سے مصافحہ کرتے تھے تو اپنا ہاتھ نہ کھینچتے حتی کہ وہ ہی اپنا ہاتھ کھینچتا تھا ۱؎ اور آپ اپنا منہ اس کے منہ سے نہیں پھیرتے تھے حتی کہ وہ ہی اپنا منہ حضور کے چہرے سے پھیرتا اور حضور کو کبھی نہ دیکھا گیا کہ حضور اپنے ہم نشین کے سامنے گھٹنے پھیلا کر بیٹھے ہوں

( مشکوٰۃ، ج ہشتم، حدیث ۸۳ بحوالہ ترمذی)

مرآۃ المناجیح میں اس حدیث کی شرح یوں ہے؛

ٌیہ حضور کے اخلاقِ کریمانہ ہیں کہ کسی سے جب مصافحہ فرماتے تو اپنا ہاتھ نہ کھینچے وہ جنتی دیر تک آپ کا ہاتھ تھامے رہتا آپ بھی ویسے ہی اس کا ہاتھ پکڑے رہتے وہ دستگیر عالم جو ہوئے۔

۲؎ یعنی حضور انور کبھی کسی مجلس میں کسی کی طرف پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے نہ اولاد کی طرف،نہ ازواج پاک کی طرف،نہ غلاموں خادموں کی طرف کہ اس عمل سے شاید اس کو تکلیف ہو کہ اس میں سامنے والے کی تحقیر ہوتی ہے،نیز یہ طریقہ متکبرین اور غرور والوں کا ہے۔دوسروں کی طرف پاؤں پھیلا کر بیٹھنا اپنی عزت اس کی حقارت ظاہر کرنا اللہ تعالٰی ہم سب کو اخلاق محمدی نصیب کرے۔آمین!ٌ۔

اب فقہا کے اقوال ملاحظہ فرمائیں؛

قبلہ کی طرف پاؤں پھیلانا تو ہر جگہ منع ہے ۔ (رد المحتار علی الدرالمختار، کتاب الطہارۃ، اذا دخل المستنجی، ج۱، ص۶۰۸)

قِبلہ کی طرف پاؤں پھیلاناتوہرجگہ َمنع ہے۔مسجِدمیں کسی طرف نہ پھیلائے کہ یہ خِلافِ آدابِ دربار ہے۔حضرتِ ابراہیم بن اَدھم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسجِد میں تَنہابیٹھے تھے ،پاؤں پھیلالیا،گوشہ مسجِدسے ہاتِف نے آواز دی،”ابراہیم ! بادشاہوں کے حُضُورمیں یوں ہی بیٹھتے ہیں؟ ” مَعاً (یعنی فوراً )پاؤں سمیٹے اورایسے سَمیٹے کہ وَقتِ انتقِال ہی پھیلے۔

(مُلَخَصًاازالملفوظ حصہ دُوُم ص۳۷۷)

امام المسلمین الشاہ احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ اسی سے متعلقہ ایک سوال کے جوبا میں فرماتے ہیں ؛

ٌکعبہ معظمہ کی طرف پاؤں کرکے سونا بلکہ اس طرف پاؤں پھیلانا سونے میں ہو خواہ جاگنے میں۔ لیٹے ہوخواہ بیٹھے میں۔ ہر طرح ممنوع و بے ادبی ہےٌ۔

(فتاوٰی رضویہ، جلد ۲۳، کتاب الحظر والاباحۃ، ص ۸۴/۸۵)

واللہ ورسولہ اعلم

کتبہ: افتخار الحسن رضوی

اپنی رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *