از: علامہ افتخار الحسن رضوی
بسم اللہ والحمد للہ والصلاۃ والسلام علٰی رسول اللہ ، وعلٰی اٰلہ وصحبہ اجمعین
چاند گرہن کو شریعتِ اسلامیہ میں “خسوف” کہا گیا ہے اور اس دوران پڑھی جانے والی نماز کو “نمازِ خسوف” کہا جاتا ہے۔ سورج اور چاند کے یہ انداز و حالات در حقیقت خالقِ ارض و سماء کی قدرت اور اس کے حسن و مقام کے اظہار کا ایک انداز ہے۔ قرآنِ مقدس میں خالقِ حقیقی ارشاد فرماتا ہے؛
اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ
“(سورج اور چاند ایک حساب سے چلتے ہیں )یعنی کہ تقدیرِ معیّن کے ساتھ اپنے بروج و منازل میں سیر کرتے ہیں اور اس میں خَلق کے لئے منافع ہیں ، اوقات کے حساب ، سالوں اور مہینوں کی شمار انہیں پر ہے” ۔
در حقیقت چاند یا سورج کا یہ گرہن اللہ تعالٰی کی قدرتِ کاملہ کا ایک طرح سے اظہار ہے اور انسانیت کے لیے دعوت فکر ہے۔ لیکن ہندو پس منظر رکھنے والے علاقوں میں مقیم افراد اس سے کچھ گمراہ خیالات پال لیتے ہیں جیسا کہ ہند و پاک میں معروف خیال ہے کہ خسوف و کسوف کے دوران حاملہ عورت کو چاند و سورج کے سامنے نہیں جانا چاہیے ، اس سے بچے معذور پیدا ہوتے ہیں۔ جب کہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے اور یہ فکر محض باطل ہے۔ آج جب چاند گرہن ہو گا تو دنیا میں لاکھوں بلکہ کروڑوں عورتیں اس وقت حمل کی حالت میں ہوں گی، ایسی حالت میں معذور پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد وہی ہو گی جو عموما کسی بھی ملک یا ریاست میں ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گرہن کی وجہ سے بعد از گرہن جتنے بچے پیدا ہوں وہ سب کے سب معذور ہوں، لیکن ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالٰی کی قدرت کسی بھی انسان پر اس انداز میں عذاب یا مصیبت کا باعث نہیں ہے بلکہ وہ رحمٰن و رحیم اس طرح کے تغیر و تبدل سے اپنے اسرار اور قدرت کا اظہار فرما کر انسانوں کو دعوت فکر دیتا ہے۔ نبی غیب دان ﷺ ان حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں؛
إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا یَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ وَلَکِنَّهُمَا آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اﷲِ فَإِذَا رَأَیْتُمُوہَا فَصَلُّوا.
“سورج اور چاند کو کسی کی موت اور زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب تم انہیں دیکھو تو نماز پڑھا کرو”۔
1. صحیح بخاری 1: 353، رقم: 995، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
2. صحیح مسلم 2: 630، رقم: 914، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي
اگر گرہن کے دوران کوئی احتیاطی و حفاظتی تدابیر کی حاجت ہوتی تو رسول کریم ﷺ اس کی طرف ہماری رہنمائی ضرور فرماتے ، کیونکہ حضور ﷺ نے ہر موذی، شریر و مضر فعل و شے سے متعلق خبریں عطا فرما دی ہیں۔ صحیحین ہی میں حضرت ابو موسٰی رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے جو جہل، گمراہی اور باطل افکار کو بہترین رد کرتی ہے؛
خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم فَزِعًا یَخْشَی أَنْ تَکُونَ السَّاعَةُ فَأَتَی الْمَسْجِدَ فَصَلَّی بِأَطْوَلِ قِیَامٍ وَرُکُوعٍ وَسُجُودٍ رَأَیْتُهُ قَطُّ یَفْعَلُہُ وَقَالَ هَذِہِ الْآیَاتُ الَّتِي یُرْسِلُ اﷲُ لَا تَکُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ وَلَکِنْ {یُخَوِّفُ اﷲُ بِهِ عِبَادَهُ} فَإِذَا رَأَیْتُمْ شَیْئًا مِنْ ذَلِکَ فَافْزَعُوا إِلَی ذِکْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ.
“سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ پر ایسی کیفیت طاری ہوئی جیسے قیامت آ گئی ہو۔ پھر آپ ﷺ مسجد میں تشریف فرما ہوئے اور نماز پڑھی، بہت ہی لمبے قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ۔ میں نے آپ کو ایسا کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اور فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ یہ کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ جب تم ایسی کوئی بات دیکھو تو اللہ کے ذکر، دعا اور استغفار کی طرف دوڑا کرو۔
1. صحیح بخاری 1: 360، رقم: 1010
2. صحیح مسلم 2: 628، رقم: 912
شارعِ اسلام ﷺ کے عمل مبارک سے ثابت ہوا کہ اس دوران اوہام، باطل خیالات اور ہند و افکار پر یقین رکھنے کی بجائے توبہ استغفار، نوافل کی کثرت اور عبادات کا اہتمام کیا جانا چاہیے نہ کہ حاملہ عورت سر پر تیل لگا کر کپڑا باندھ لے اور سوگ جیسی کیفیت میں خود کو جبراً گرفتار کر لے۔ ایسے اعمال کمزور اعتقاد اور ضیعف نظریات کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ جب بھی ایسی صورت حال درپیش ہو تو علماء کرام سے رہنمائی لیں اور ان کے فرامین پر مکمل صدق و یقین سے عمل کریں۔
واللہ ورسولہ اعلم
اپنی رائے دیں