از: افتخار الحسن رضوی
اسلامی ممالک و حکام اور اصحاب اقتدار و اختیار خواب خرگوش میں ہیں اور virtual world میں آنے والا ہر دن مسلمانوں کے لیے تنگی، صعوبت اور مصیبت کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ fifth generation war کے حملے نت نئے انداز میں جاری ہیں، security & privacy کے نام پر app store اور android سمیت دیگر operating systems مسلسل مسلمانوں پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ ہماری حماقت و نادانی کا عالم دیکھیے کہ Samsung galaxy series سے شروع ہونے والے finger/biometric scan سے لے کر آئی فون کے retina scan/face ID تک کے سفر میں ہمیں یہ سمجھ نہیں آئی کہ یہ کمپنیاں ففتھ جنریشن وار میں کیا کردار ادا کر رہی ہیں۔ جذباتی و مشتعل مسلمان ہر نئے حربے کو یہود و نصارٰی کا حملہ قرار دیتے ہیں، لیکن ہم یہ بھی نہ سمجھ سکے کے حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا سٹورز پر موجودہ کالنگ ایپس نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ وائبر،وٹس ایپ اور ٹیلی گرام جیسی ایپس کے مقابلے میں ہندوستانی ہندو ڈویلپرز نے درجنوں ایسی ایپس بنا کر پاکستان اور ہندوستان میں مسلمانوں کو data collection کے ذریعے قابو کر لیا ہے۔ اس وقت میں اپنے قارئین کی توجہ وٹس ایپ کے فیس بک کے ساتھ data sharing کے نئے معاہدے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں جو واقعی کرنٹ افئیرز میں ایک الارمنگ معاملہ ہے۔
وٹس ایپ کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ ایک مضبوط، بہترین اور اعلٰی کوالٹی کی کالنگ اور میسجنگ ایپ ہے۔ پہلے دن سے یہ مفت رہی، اس پر کوئی اشتہار بھی نہیں دیا جاتا تھا۔ بڑے بڑے مغربی ڈویلپرز بھی سوال اٹھاتے رہے کہ اگر وٹس ایپ اشتہار بھی نہیں بیچتا تو پھر ڈویلپرز کے لیے اس ایپ سے کیا مفاد وابستہ ہیں؟ اگر دیکھا جائے تو سال ۲۰۰۹ میں ڈویلپ ہونے والی یہ ایپ معروف سرچ انجن اور براوزر yahoo کے دو سابقہ ملازمین نے مل کر بنائی تھی۔ یہ دونوں لوگ نطریاتی اعتبار سے اسلام مخالف ہیں۔ سال ۲۰۱۴ میں فیس بک کمپنی نے وٹس ایپ کو انیس ارب ڈالر (یعنی ۳۰ کھرب پاکستانی روپوں سے زائد) کے عوض خرید لیا تھا۔ ایک مفت ایپلیکشن پر اس قدر سرمایہ کاری کیا معانی و مقاصد رکھتی ہے؟ اس سے قبل سال ۲۰۱۲ میں فیس بک نے معروف ایپ “انسٹا گرام” فقط ایک ارب ڈالر میں خریدی تھی، جب کہ انسٹا گرام صد فیصد کمرشل ایپ ہے اور اس پر روزانہ ملین ڈالرز کے اشتہارات بکتے ہیں۔ ایک کمرشل ایپ کی قیمت ایک ارب ڈالر اور مفت میسجنگ ایپ کی قیمت ۱۹ ارب ڈالر کیوں ہے؟
وٹس ایپ کی مالک کمپنی “فیس بک کا تعلق ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا اور بلاگنگ کے اس گروپ سے ہے جس نے اعلانیہ اسلام، مسلمانوں، اسلامی تعلیمات اور تشخص کو براہِ راست نشانہ بنایا ہے۔ vulgarity & prostitution کو ہوا دینے والا مواد وہ زہر ہے جو انسانی معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے، لیکن فیس بک نے اسے اپنے کمیونٹی سٹینڈرڈز کے موافق سمجھ رکھا ہے۔ کشمیر، فلسطین، برما، یمن، شام، عراق اور افغانستان میں کفار کی طرف سے مسلمانوں کی نسل کشی، قتلِ عام، جبر و تشدد سے لے کر املاک کو نقصان پہنچانے تک کی ویڈیوز پوسٹ ہوئیں، لیکن فیس بک نے اس پر کوئی “پالیسی ” واضح نہیں کی۔ ڈنمارک، ہالینڈ اور ناروے کے گستاخوں نے قرآن مقدس کے نسخے جلائے، رسول اللہ ﷺ کے خاکے چھاپے، ان گستاخوں کے تمام اکاونٹس آج بھی موجود ہیں، لیکن پاکستانی علما٫ اور مشائخ کے اکاونٹس نہ صرف بند کیے گئے بلکہ جن صارفین نے تحریک لبیک اور علامہ رضوی علیہ الرحمہ کا ساتھ دیا، تصاویر شئیر کیں، انہیں نہ صرف روکا گیا، بلکہ ان کے اکاونٹس مستقل بند کر دیے گئے۔ سیکیورٹی اور verification کے نام پر ان لوگوں کے شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس اپلوڈ کروائے گئے، اور پھر انہیں حتمی بلاک کر دیا گیا۔ اب یہ سب لوگ جب بھی امریکہ اور یورپ کا ویزہ اپلائی کریں گے، دھتکارے جائیں گے، بلیک لسٹ کیے جائیں گے۔
(جاری ہے)
کتبہ: افتخار الحسن رضوی
۸ جنوری ۲۰۲۱
اپنی رائے دیں