ابو لہب کے عذاب میں تخفیف

(علامہ افتخار الحسن رضوی)

اس میں رتی برابر بھی شک نہیں کہ رسول کریم ﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ اور بعد از وصال شریف بھی امت نے آپ کا وسیلہ طلب کیا اور اس بارگاہ مقدسہ طیبہ سے کسی کو خالی دامن نہ لوٹایا گیا۔ وسیلہ و شفاعت اور بارگاہ عالیہ کی سفارش گناہگاروں کی بخشش و مغفرت اور نجات کا ذریعہ ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان اور ائمہ و اولیائے عظام رحمہم اللہ علیہم اجمعین کے اعمال و افعال اور تعلیمات سے ثابت ہے کہ سید المرسلین خاتم النبین ﷺ کی ولادت شریف کی خوشی منائی گئی اور اس پر مبارکبادیاں بھی پیش کی گئیں۔ بعد ازاں امت کے جلیل القدر مشائخ نے تسلسل کے ساتھ دنیا کے ہر کونے بشمول حرمین طیبین مولود النبی ﷺ کی محافل و احتفالات کا انعقاد کیا ، آج تک کیا جا رہا ہے اور ہمیشہ کیا جاتا رہے گا۔ ان شاء اللہ ۔ اور کیوں نہ کرتے کہ نعمت عظمی (ﷺ) کی خوشی اگر منہا کر دی جائے تو دنیا خشک و بے رونق بلکہ دنیا کا وجود ہی نہیں ہے۔ ابو لہب عمِّ رسول اللہ ﷺ تھا، کفر پر مرا لیکن وقتِ مولودِ مصطفٰی کریم ﷺ خوشی کا اظہار کر گیا تو بعد از مرگ عذابِ قبر میں تخفیف کا حق دار ٹھہرا۔ اس کا مدلل و مفصل ذکر کتب میں اکابر محدثین و مشائخ جو تمام مسالک کے لئیے مقبول ہیں، نے فرمایا لیکن عظمت و عزت رسول اللہ ﷺ کے منکرین کو گزشتہ صدی سے اس پر “انکار” کی سوجھی اور امت میں انتشار و تفرقہ پھیلاتے ہوئے لوگوں کے ذہنوں میں اس قدر الجھاؤ پیدا کر دیا کہ اب اس مسئلہ کی وضاحت پوچھی جانے لگی ہے۔منافقین و مفسدین کا حربہ ہی یہ ہوتا ہے کہ اہلِ اسلام کی متحد صفوں میں چنگاری پھینک دیتے ہیں اور پھر مسلمانوں کے عقائد و فقہ سے متعلق مسائل میں جلتے بجھتے دیکھ کر اپنے من کی تسکین کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔    اس مسئلہ پر بفضلہ تعالٰی ہم نے “دعوۃ القرآن” کے ذریعے متعدد بار لکھا اور عوام الناس کے سامنے اس مسئلہ کے جوابات پیش کیے۔ فتاوٰی رضویہ شریف کے مطالعہ کے دوران یہی مسئلہ نظر سے گزرا تو سوچا امام اہلسنت مجدد دین و ملت اعلٰیحضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی زبان مبارک جو کہ حق کی ترجمان ہے، کا عطا کیا ہوا جواب آپ کے سامنے پیش کیا جائے۔ فتاوٰی رضویہ شریف سے ماخوذ یہ مسئلہ آپ احباب کی خدمت میں پیش ہے جس پڑھ کر یقیناً ایمان کی تازگی و حلاوت نصیب ہو گی۔ ان شاء اللہ

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ولادت کی خبر جب ثویبہ جاریہ ابی لہب نے ابو لہب کو سنائی اس وقت ابولہب نے خوش ہوکر ثویبہ کو آزاد کردیا پھر کئی دن تک ثویبہ نے حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دودھ پلایا ، پھر ابولہب کواس کے مرنے کے بعدخواہ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یا اورکسی نے خواب میں دیکھا اورپوچھا: کیا حال ہے تیرا؟ بولا: آگ میں ہوں لیکن تخفیف ہوتی ہے ۔ ہر دوشنبہ کی رات اورچوستاہوں دو انگلیوں سے پانی ، جن کے اشارے سے آزاد کیا تھا ثویبہ کو۔ یہ قصہ اکثر معتبرین سے سناگیا ہے ، اورعلامہ جزری علیہ الرحمہ نے بھی اپنے رسالہ میلاد شریف میں اس کو لکھا ہے اوراس کے بعد یہ لکھا ہے : اذاکان ھٰذا ابولہب الکافرالذی نزل القراٰن بذمہ جوزی فی النار بفرحہ لیلۃ مولد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بہ فما حال المسلم الموحدمن امتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الٰی آخرہ ۔

( المواہب اللدنیہ     المقصد الاول   المکتب الاسلامی بیروت   ۱ /۱۴۷)

جب یہ حال ابو لہب جیسے کافر کا ہے جس کی مذمت میں قرآن نال ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ولادت کی شب خوشی منانے کی وجہ سے اس کو بھی قبر میں بدلہ دیا گیا توآپ کے موحد ومسلمان امتی کا کیا حال ہوگا الخ۔ اس پر ایک شخص کہتاہے کہ یہ کیونکر صحیح ہوسکتاہے جبکہ قرآن شریف میں اللہ جل شانہ خبردیتاہے ابولہب کی نسبت مااغنیٰ عنہ مالہ وما کسب کہ نہ نفع دیا اس کو ا س کے مال اوراس کے فعل نے ۔ پس مال لونڈی اورفعل اس کا آزاد کرنا۔ ورنہ خواب خیال کی باتیں آیات قرآنیہ کے مقابل میں کیونکر صحیح ہوں گی ، پس اس کی تطبیق کیونکر صحیح ہوگی ۔ بیان فرمائیے ۔

الجواب : یہ روایت صحیح بخاری شریف میں ہے ،ائمہ نے اسے مقبول رکھا اور اس میں قرآن عظیم کی اصلاً مخالفت نہیں ۔قطع نظر اس سے یہ اغنانہ ہوا اس کا سبب حضور پرنور رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے علاقہ ۔

حضور کی ولادت کریمہ پر خوشی کہ یہ نہ اس کا مال ہے نہ اس کا کسب وفعل اختیاری ۔ یہ تو کیا ایسا فائدہ ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے علاقہ ابو طالب کو ایسا کام آیا کہ سراپا آگ میں غرق تھے ۔ حضور انورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے پایاب آگ میں کھینچ لیا کہ اب صر ف تلووں میں آگ ہے حالانکہ کفار کے حق میں اصل حکم یہ ہے کہ :

لایخفف عنہم العذاب ولاھم ینظرون۔ ( القرآن الکریم   ۱۶۲ /۲)

ترجمہ: نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے نہ کوئی ان کی مدد کرے ۔

صحیح بخاری وصحیح مسلم میں عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :

نعم ھو فی ضحضاح من نار ولو لاانا لکان فی الدرک الاسفل من النار ۔

ہاں وہ تھوڑی سے آگ میں ہے ، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوتا ۔

( صحیح مسلم   کتاب الایمان   باب شفاعۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم لابی طالب الخ   قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۵   )

(صحیح البخاری   کتاب الادب باب کنیۃ المشرک   قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۱)

وفی روایۃ وجدتہ فی غمرات من النار فاخرجتہ الٰی ضحضاح۔ اورایک روایت میں ہے کہ میں نے اس کو جہنم کی گہرائیوں میں پایا تو اس کو تھوڑی سے آگ کی طرف نکال لیا۔

( صحیح مسلم   کتاب الایمان   باب شفاعۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم لابی طالب الخ   قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۵)

اسی طرح صحیحین میں ابو سعید خدری اور مسند بزاروابویعلی وابن عدی وتمام میں حضرت جابر بن عبداللہ اورمعجم کبیر طبرانی میں ام المومنین ام سلمہ سے ہے ، رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین امام عینی شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں :

فان قلت اعمال الکفر ۃ ھباء منشور لافائدۃ فیھا ، قلت ھذ ا النفع من برکۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وخصائصہ۔ اگر تو کہے کہ کافروں کے اعمال تو بکھر ے ہوئے غبار کے ذروں کی طرح ہوتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ، تو میں کہوں گا یہ نفع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت اورآ پ کے خصائص سے ہے ۔

(عمدۃ القاری     شرح صحیح البخاری     کتاب المناقب     باب قصۃ ابی طالب ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت   ۱۷ / ۱۷)

امام ابن حجر کی فتح الباری شرح بخاری میں ہے :

یؤید الخصوصیۃ انہ بعد ان امتنع شفع لہ حتی خفف عنہ العذاب بالنسبۃ لغیرہ۔

اس خصوصیت کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ایمان لانے سے انکار کے بعد بھی آپ نے اس کےلئے شفاعت کی یہاں تک کہ اس کے عذاب میں دوسروں کی بنسبت تخفیف کردی گئی ۔

( فتح الباری     شرح صحیح البخاری   کتاب التفسیر   سورۃ القصص مصطفی البابی مصر۱۰ /۱۲۳)

اسی طرح مجمع بحار الانوار وغیرہ میں ہے ، ان سب کا حاصل یہ ہے کہ یہ نفع کافر کے عمل سے نہ ہوا بلکہ حضوررحمۃ للعالمین کی برکت سے ، اوریہ خصائص عُلیہ حضوراکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ہے ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔

ماخذ:

فتاوٰی رضویہ، جلد 30، باب فضائل و خصائص، ص18

اپنا تبصرہ بھیجیں