کتاب و سنت کی روشنی میں وسیلہ کا بیان (۱)

(علامہ افتخار الحسن رضوی)

وسیلہ یا توسل اہل اسلام کے عقائد میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ اس عنوان کو لے کر فی زمانہ کچھ عناصر مسلمانوں کے اذہان کو خراب کرنے پر تُلے ہیں اور اسی آڑ میں شر انگیزی بھی ہو رہی ہے۔ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے وھابی مذہب کے معروف مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے تو اسے صراحتا کفر و شرک سے تعبیر کیا اور قرآن کی پچیس آیات کو وسیلہ کی نفی بتایا۔ تاہم مبلغ موصوف آج تک کوئی ایک ایسی آیت بھی پیش نہ کر سکے جو وسیلہ کی نفی کرتی ہو۔ اس سلسلہ میں محب گرامی علامہ احسان اقبال قادری (کولمبو سری لنکا) نے ڈاکٹر نائیک سے مل کر کئی سال قبل دعوت دی تھی کہ ان پچیس آیات کی نشاندہی فرما دیں جو وسیلہ کی نفی کرتی ہوں لیکن ڈاکٹر نائیک جو کہ علوم و فنون دینیہ سے بالکل واقف نہیں ہیں، وہ کوئی آیت پیش نہ کر سکے۔ حال ہی میں مشرق بعید کے سفر کے دوران ڈاکٹر نائیک اور میرے درمیان ایک ائیرپورٹ پر خلاف توقع ملاقات ہوئی اور اس کی خبر بھی لیک ہو گئی۔ میں نےا س ملاقات پر اپنا مؤقف پیش کر دیا تھا ،لہٰذا دہرانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ مختصر یہ کہ میں نے بھی ڈاکٹر نائیک کے سامنے یہی سوالات رکھے تھے جس پر وہ حسبِ سابق ٹال مٹول کر کے نکل گئے تھے۔ اس سارے تناظر میں میرے بعض دوست مسلسل مطالبہ کرتے رہے کہ جدید تعلیمی اداروں، الحاد اور فکری بیماری کے شکار طبقے کی رہنمائی کے لیے توسل یا وسیلہ پر کچھ سپردِ قلم کروں۔ مجھے اپنی بے بضاعتی اور علمی خامیوں کا بھرپور احساس ہے ، اس کے ساتھ ساتھ وقت کی تنگی بھی ایک سبب تاخیر کا ہے۔ اس کے باوجود اقساط میں کچھ نہ کچھ پیش کرتا رہوں گا۔ میں اللہ جل و علا کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ یہ سلسلہ ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کے لیے خیر ، اصلاح اور آگاہی کا سبب بنے گا۔

وسیلہ یا توسل پر کلام کرنے سے قبل ضروری ہے کہ اس کی تعریف سمجھ لی جائے؛

الوسیلۃ ھی فی الاصل ما یتوصل بہ الٰی شئی و یتقرب بہ۔ یعنی درحقیقت وسیلہ وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی تک پہنچا جائے اور اس کا قرب حاصل کیا جائے۔ (لسان العرب، ۷۲۵:۱۱)

علامہ زمخشری نے اس کی تعریف یوں کی؛

ٌہر وہ چیز جس کے ذریعے اللہ تک پہنچا جائے یعنی قرب حاصل کیا جائے ، اسے ہی وسیلہ کہتے ہیںٌ۔

(تفسیر الکشاف، ۱: ۴۸۸)

شاہ اسماعیل دہلوی کے نزدیک وسیلہ کی تعریف دیکھیے؛

ٌسالکانِ راہ حقیقت نے وسیلہ سے مراد مرشد لیا ہے، حقیقی کامیابی وکامرانی کے حصول کے لیے مجاہدہ و ریاضت سے پہلے تلاشِ مرشد از حد ضروری ہے اور اللہ تعالٰی نے سالکانِ راہ حقیقت کے لیے یہی قاعدہ مقرر فرمایا ہے۔ اسی لیے مرشد کی رہنمائی کے بغیر اس کا ملنا شاذ و نادر سا ہےٌ۔

(صراطِ مستقیم: ۵۸)

مذکورہ بالا عبارت   اس طبقے کے امام کی ہے جو فی زمانہ وسیلہ کو شرک و بدعت سے تعبیر کرتا ہے جب کہ ان کے امام صاحب وسیلہ پر کس قدر واضح مؤقف پیش کر رہے ہیں کہ وسیلہ کو ٌاز حد ضروریٌ لکھ دیا۔

وسیلہ کی متعدد تعریفات کی گئیں، عصرِ حاضر میں بھی اس پر بہت لکھا گیا لیکن بنیادی نکتہ کی وضاحت کے لیے مذکورہ بالا سطور کافی ہوں گی۔

وسیلہ کی کئی اقسام ہیں، جیسے توسل فی الدعا، توسل بالاستغاثہ، توسل بالاعمال الصالحہ یا توسل بآثار الصالحین۔ اب مذکورہ اقسام وسیلہ کی مزید کئی اقسام ہیں یعنی شاخیں یا Sub Categories ہیں۔ لیکن ہمارے پیش نظر جو وسیلہ ہے اس میں توسل فی الدعا اور انبیا و صالحین کا وسیلہ ہے۔ ہم اسی پر کلام کریں گے۔

اگر انبیا کرام علیہم السلام سے توسل کی بات کریں تو سب سے پہلے سید الرسل ﷺ کی بات ہو گی۔ امت کا طریقہ رہا ہے کہ سید الرسل ﷺ کی ظاہری حیات اور بعد از وصال آپ ﷺ سے استغاثہ، استمداد، وسیلہ یا توسل کیا جاتا رہا اور کیا جاتا رہے گا۔ مثال کے طور پر یہ روایت دیکھیے؛

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ اِذَا قُحِطُوْا اِسْتَسْقٰی بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ:اَللّٰھُمَّ اِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیْنَا وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ: فَیُسْقَوْنَ۔

(صحیح البخاری،کتاب الاستسقاءا باب سؤال الناس الامام۔۔۔الخ،الحدیث:۱۰۱۰،       ج۱،ص۳۴۶)

ترجمہ:ٌحضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،جب لوگ قحط سالی میں مبتلا ہوتے تھے تو حضرت عباس بن عبد المطلب کے وسیلہ سے بارش کی دُعا مانگا کرتے تھے اور یوں کہتے تھے کہ

یا اللہ ! عزوجل ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی کو وسیلہ بنایا کرتے تھے اس وقت تو ہم کو بارش سے سیراب فرماتا تھا اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کوتیری بارگاہ میں وسیلہ بناتے ہیں لہٰذا تو ہم کو سیراب فرما دے تو لوگ سیراب کردئے جاتے تھےٌ۔(یعنی بارش ہوجاتی تھی)۔

یہ روایت اس کتاب کی ہے جو قرآن کے بعد معتبر ترین مانی جاتی ہے اور وسیلہ کا انکار کرنے والا طبقہ بخاری بخاری کی گردان کرتا ہے۔ پھر اس روایت میں وسیلہ کا یہ عمل امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے اور روایت کرنے والے صحابی جید و معروف ہیں۔ پھر نماز استسقا کے اس جماعت میں دو چار نہیں بلکہ ہزاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان موجود تھے۔ جماعت صحابہ کا وسیلہ کے اس عمل پر اتفاق قطعی دلیل ہے کہ یہ عمل صحابہ کا محبوب، درست اور عین شریعت کے مطابق ہے۔

حضرت علامہ عینی علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا کہ ’’ابو صالح‘‘کی روایت کردہ حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے ساتھ منبر پر کھڑا کیا اور پہلے خود اس طرح دُعا مانگی کہ؛

’’اَللّٰھُمَّ اِنَّا تَوَجَّھْنَا اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّکَ وَصِنْوِ اَبِیْہٖ فَاسْقِنَا الْغَیْثَ وَلَا تَجْعَلْنَا مِنَ الْقَانِطِیْنَ‘‘

یااللہ! عزوجل ہم سب تیرے نبی کے چچا کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتے ہیں لہٰذا تو ہم لوگوں کوبارش سے سیراب فرما دے اور ہم کو ناامید نہ فرما۔

اس کے بعد حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے ابو الْفَضْل! تم بھی دُعاء مانگو تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طرح دُعاء مانگی کہ

’’اَللّٰھُمَّ لَمْ یُنْزَلْ بَلَاء اِلَّا بِذَنْبٍ وَلَمْ یُکْشَفْ اِلَّا بِتَوْبَۃٍ وَقَدَ تَوَجَّہَ بِیَ الْقَوْمُ اِلَیْکَ لِمَکَانِیْ مِنْ نَبِیِّکَ وَھٰذِہٖ اَیْدِیْنَا اِلَیْکَ بِالذُّنُوْبِ وَنَوَاصِیْنَا بِالتَّوْبَۃِ فَاسْقِنَا الْغَیْثَ‘‘

یااللہ! ہر بلا گناہوں کے باعث ہی اتاری جاتی ہے اور بغیر توبہ کے کوئی بلا دفع نہیں کی جاتی ساری قوم میرے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوئی ہے کیونکہ مجھ کو تیرے نبی سے ایک خاص تعلق ہے یہ ہمارے گناہگار ہاتھ اور ہماری توبہ کرنے والی پیشانیاں تیرے حضور میں حاضر ہیں لہٰذا تو ہم لوگوں کو سیراب فرمادے۔

راوی کا بیان ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دُعا ء کے بعد پہاڑوں کی طرح بدلیاں ہر چہار طرف سے آگئیں   اور خوب بارش ہوئی یہاں تک کہ زمین سیراب ہوکر سرسبز و شاداب ہوگئی۔

(عمدۃ القاری،کتاب الاستسقاءا با ب سؤال الناس الامام۔۔۔الخ، تحت الحدیث:۱۰۱۰،     ج۵،ص۲۵۵)

عمدۃ القاری میں جس واضح اور روشن انداز میں اس حدیث کی شرح لکھ دی گئی ہے اس پر مزید کسی تبصرہ کی گنجائش نہیں ۔ یہ شرح کسی بریلوی عالم کی نہیں اور نہ ہی ہندو پاک کے کسی مکتبہ کی پیش کش۔ یہ وہ کتب ہیں جو بلاد عرب سے شائع ہوئیں اور ان کے لکھنے والے بھی ہند و پاک سے تھے نہ ہی بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں